Maktaba Wahhabi

421 - 548
کے سوا کسی اور کی غیب دانی کا صاف انکار فرمایا گیا ہے، ایک وقتِ قیامت، دوسری وقتِ باراں، تیسری وہ چیز جو ماں کے پیٹ میں ہے، چوتھی حال فردا، پانچویں جائے موت ہے۔ ان پانچوں کا علم اللہ کے لیے خاص ہے، ان میں سے کسی چیز کے بارے میں کسی مخلوق کو قطعی علم نہیں ہو سکتا۔ ٍدیکھو! تمام انبیا و اولیا کے سردار ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب خاص ان سے یہ بات کہلا دی کہ میں اپنی ذات کے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں، اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائی حاصل کر لیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ چھوتی، تو اب وہ دوسرا کون ہے جو غیب داں ہو؟ البتہ کبھی کسی کو اللہ کی طرف سے کسی بات کا القا والہام ہو جائے تو یہ اور بات ہے، لیکن اس طرح سے کسی بات کی خبر ہو جانا اس کی اپنی ذاتی قدرت و اختیار سے نہیں ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے امور واحوال کی خبر دی ہے، کسی کو بہشتی اور کسی کو دوزخی بتایا، علاماتِ قیامت بیان فرمائیں؛ یہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی قدرت واختیار سے بتایا ہے۔ فقہا نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ انبیا و اولیا کی بابت علمِ غیب کا اعتقاد رکھنا کفر ہے، لہٰذا جو کوئی یہ کہے کہ ارواحِ مشائخ حاضر ہیں اور علم رکھتی ہیں، وہ کافر ہو جاتا ہے۔[1] حدیثِ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا میں یہ بات مذکور ہے کہ چند چھوکریاں گیت گا رہی تھیں تو ان میں سے ایک چھوکری نے اپنے گیت میں کہا: و فینا نبي یعلم ما في غد [ہم میں ایسا نبی ہے جو کل کی بات جانتا ہے] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھڑک دیا اور یہ بات کہنے سے منع کیا۔[2] اس سے معلوم ہوا کہ کسی نبی، ولی، امام، شہید، پیر، استاد، کاہن، ساحر، نجومی اور جوتشی وغیرہ سے متعلق یہ عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے کہ وہ غیب کی بات جانتا ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں بھی یہ اعتقاد رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ آپ کی تعریف میں بھی ایسی بات نہیں کہنی چاہیے۔ نعتیہ کلام کے متعلق شعرا کا یہ عذر پیش کرنا کہ شعر میں مبالغہ ہوتا ہے، غلط بات ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر مذکور میں اپنے علمِ غیب کے ذکر ہی پر منع و توبیخ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک بچی کو ایسی
Flag Counter