Maktaba Wahhabi

91 - 548
اپنی کثرتِ تعداد کا ذکر کرتا رہتا ہے) ’’تقویۃ الإیمان‘‘ کی مخالفت اور اس کے مصنف علام کے خلاف تہمت تراشی میں سرگرم رہتا ہے۔ پچھلے دنوں اسی فرقے کے ایک مضمون نگار کی تحریر دہلی کے ایک معروف اردو سہ روزہ کی ایک خصوصی اشاعت میں نظر سے گزری جس پر خاکسار کو سخت حیرت ہوئی۔ معلوم نہیں مذکورہ معاصر نے اس تحریر کو کسی تبصرے کے بغیر شائع کیا تو اس کا مقصد کیا تھا؟ مضمون نگار موصوف نے تحریر فرمایا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں میں کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے سبب اختلاف وافتراق پیدا ہوا، اس کتاب کے ظہور سے پہلے یہاں کے مسلمان متحد تھے!! (مضمون نگار کی عبارت نہیں مفہوم نقل کیا گیا ہے) ہر صاحبِ قلم پوری طرح آزاد ہے، جو چاہے لکھے، لیکن سچائی کا خون اور امر واقع کی تکذیب کو کسی طرح گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ برصغیر کی تاریخ پہلی صدی ہجری سے آپ کے سامنے ہے۔ سیاسی پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مذہبی لحاظ سے مسلمانوں پر نظر ڈالیے کہ ان میں جو اتحاد موجود تھا، اس کی نوعیت کیا تھی اور مختلف مذہبی فرقوں نے کس طرح ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا تھا؟ بعض حلقوں سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اتحاد میں بہر صورت خیر ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ اسلامی احکام کے اصل سرچشمہ یعنی کتاب وسنت پر اتحاد کی قیمت ہے اور وہی امت کو مطلوب ہے۔ اسی طرح اسلام کے بنیادی اصول کے تحفظ کے لیے جو افتراق ہوتا ہے، اسے مذموم نہیں قرار دیا جا سکتا۔ شریعت کے بنیادی اور متفقہ مسائل کے خلاف عمل پر اگر نکیر کی جاتی ہے تو بعض لوگ اسے افتراق سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایسے حضرات کو سوچنا چاہیے کہ قرآن کریم کی دعوت میں یہ چیز خاص ہے، اس نے قدم قدم پر شرک ومعصیت کی تردید کی ہے اور اس کے مرتکب لوگوں سے بے زاری کا اعلان کیا ہے۔ اس کی ایک صفت ’’فرقان‘‘ یعنی حق وباطل کے مابین فرق کرنے والی کتاب ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جب اپنی دعوت کا آغاز فرمایا تو آپ کے خلاف تفریق کی بات کہی گئی، لہٰذا اتحاد کو مطلق طور پر مطلوب تصور کرنا صحیح نہیں۔ قرآن کریم میں اتحاد کا واضح حکم ﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾ میں ہے، یہاں بھی دیکھئے مطلق اتحاد کی دعوت نہیں بلکہ ’’حبل اللہ‘‘ کی قید ہے، اس لیے یہ موضوع غور طلب ہے۔ اہلِ علم اس پر بات کریں تو شریعت کے مقصود کی رعایت ضروری ہے۔
Flag Counter