Maktaba Wahhabi

94 - 548
اور رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُردہ سنتوں کو زندہ کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ اتمامِ حجت ہو جائے۔ خود شاہ محمد اسماعیل محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز دہلی کی جامع مسجد کو بنایا اور یہیں سے اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ شروع میں آپ کے مواعظ اور خطبے توحید اور اسلام کے بنیادی صحیح عقیدے کی وضاحت پر مرکوز ہوتے تھے، پھر رفتہ رفتہ آپ نے اپنے مواعظ کے ذریعے اولیا ومشائخ پرستی، قبروں پر سجدے، غیر اللہ کے لیے قربانی اور نذر ونیاز جیسے شرکیہ اعمال اور باطل اعتقادات کے خلاف آواز بلند کی اور لوگوں کو معبودانِ باطلہ کی پرستش اور ان مروجہ رسوم ورواج کو ترک کرنے کی دعوت دی، جس نے مسلمانوں کی صفوں میں سرایت کر کے انھیں دینی روح سے غافل کر رکھا تھا۔ توحیدِ خالص کی اس آواز اور بدعات وشرکیہ اعمال کے خلاف آپ کی سخت نکیر نے علماے سو اور صوفیہ کو مشتعل کر دیا، پھر آپ کی شدید مخالفت کی گئی اور فتنے کی آگ بھڑک اٹھی، یہاں تک کہ آپ کو قتل کرنے کی سازش تیار کی گئی، جیسا کہ اس سے قبل فتح پوری مسجد میں آپ کے دادا کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔[1] شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ حق وباطل کی آمیزش پر زبردست گرفت رکھتے تھے اور منکرات وبدعات پر علما کی مجرمانہ خاموشی کے معاملے میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے۔ وہ حق بات علی الاعلان کہتے تھے، چنانچہ جب سید احمد بن عرفان شہید بریلوی رحمہ اللہ (۱۲۰۱ھ۔۱۲۴۶ھ) نے ۱۲۳۶ھ میں حج کا ارادہ کیا تو شاہ محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اپنے چچا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اشارے پر سید احمد شہید رحمہ اللہ کے معتقدین کو سفرِ حج کی ترغیب دینا شروع کی اور خود آپ نے اس مبارک سفر میں ان کا ساتھ دینے کا ارادہ محض اس فریضے کے احیا کے مقصد سے کیا، جس کو آپ کے مخالفین اور بہت سے ہندوستانی علما نے راستے کے پر خطر ہونے کی بنیاد پر ساقط کر رکھا تھا۔ ان حالات میں شاہ صاحب نے ’’تقویۃ الإیمان‘‘ نامی عربی میں ایک کتاب تصنیف کی، پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کر کے ان کے سامنے یہ کتاب پیش کی اور کہا کہ میں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ میرے خیال میں اس کے بعض الفاظ میں تھوڑی اور بعض الفاظ میں پوری شدت ہے۔ مثلاً میں نے شرک خفی کو شرک جلی لکھا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد فتنہ کھڑا ہو جائے۔
Flag Counter