Maktaba Wahhabi

439 - 548
[مخلوق اللہ کی عیال ہے اور اللہ کے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کی عیال کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے] ان کا کہنا ہے کہ عابد کا عمل اسی کی ذات پر قاصر ومحدود ہوتا ہے اور لوگوں کی خدمت واعانت کرنے والے کا عمل متعدی الی الغیر ہوتا ہے، پس لازم کب متعدی کے برابر ہو سکتا ہے ؟ اسی لیے عالم کو عابد پر فضیلت کی مثال ایسی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت سارے کواکب پر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (( لَأَنْ یَّھْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَّاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ )) [1] [اللہ تعالیٰ تمھارے ذریعے ایک آدمی کو بھی ہدایت نصیب فرمادے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے] دوسری حدیث میں فرمایا: ’’جو شخص کسی کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے تو اس کو اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر اجر ملتا ہے اور ان کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جاتی۔‘‘[2] نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ اور ملائکہ معلمینِ خیر پر درود بھیجتے ہیں اور سارے زمین وآسمان والے یہاں تک کہ دریا میں مچھلیاں اور اپنے سوراخ میں چیونٹیاں عالم کے لیے دعاے استغفار کرتی ہیں۔‘‘[3] اس مسلک کے لوگ کہتے ہیں کہ عابد کے مر جانے سے اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے اور صاحبِ نفع کا عمل منقطع نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ نفع جاری اور باقی رہتا ہے۔ ان کا قول یہ بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اسی لیے بھیجے گئے ہیں کہ مخلوق کے ساتھ احسان کریں، معاش ومعاد کے امور میں لوگوں کو نفع پہنچائیں، انھیں راہِ ہدایت پر لائیں اور ان کی تعلیم و تربیت کریں۔ انبیاء علیہم السلام اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ لوگوں کو خلوت نشینی اور مخلوق سے علاحدگی کی تعلیم دیں۔ اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر
Flag Counter