Maktaba Wahhabi

1016 - 644
پر کلمات ِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ کہنے لگیں: جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء اُحد کے لیے دعا فرمائی۔ اور فرمایا : اے اُمِ سعد ! تم خوش ہوجاؤ۔ اور شہداء کے گھروالوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھروالوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔ کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرمادیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! ان کے دلوں کاغم دور کر۔ ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما۔ اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں: اسی روز ۔ شنبہ ۷/شوال ۳ ھ کو سرِ شام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے۔ گھر پہنچ کر اپنی تلوار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دی۔ اور فرمایا : بیٹی ! اس کا خون دھو دو۔ اللہ کی قسم !یہ آج میرے لیے بہت صحیح ثابت ہوئی۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی تلوار لپکائی۔ اور فرمایا: اس کا بھی خون دھودو۔ واللہ! یہ بھی آج بہت صحیح ثابت ہوئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے بے لاگ جنگ کی ہے تو تمہارے ساتھ سہل بن حُنیف اور ابو دجانہ نے بھی بے لاگ جنگ کی ہے۔[2] بیشتر روایتیں متفق ہیں کہ مسلمان شہداء کی تعداد ستر تھی۔ جن میں بھاری اکثریت انصار کی تھی ، یعنی ان کے ۶۵ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ۴۱ خزرج سے اور ۲۴ اوس سے۔ ایک آدمی یہود سے قتل ہوا تھا۔ اور مہاجرین شہداء کی تعداد صرف چار تھی۔ باقی رہے قریش کے مقتولین تو ابن اسحاق کے بیان کے مطابق ان کی تعداد ۲۲ تھی ، لیکن اصحاب مغازی اور اہل ِ سِیَر نے اس معرکے کی جو تفصیلات ذکر کی ہیں اور جن میں ضمناً جنگ کے مختلف مرحلوں میں قتل ہونے والے مشرکین کا تذکرہ آیا ہے ان پر گہری نظر رکھتے ہوئے دقت پسندی کے ساتھ حساب لگایا جائے تو یہ تعداد ۲۲ نہیں بلکہ ۳۷ہوتی ہے۔ واللہ اعلم[3] مدینے میں ہنگامی حالت: مسلمانوں نے معرکۂ اُحد سے واپس آکر (۸ /شوال ۳ ھ شنبہ ویک شنبہ کی درمیانی ) رات ہنگامی حالت میں گزاری۔ جنگ نے انہیں چوُر چوُر
Flag Counter