Maktaba Wahhabi

772 - 644
سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں گفتگو 6سن نبوی کے وسط میں ہوئی تھیں اور دونوں کے درمیان فاصلہ مختصر ہی تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تجویز: ان دونوں گفتگوؤں کی ناکامی کے بعد قریش کا جذبہ جوروستم اور بھی بڑھ گیا اور ایذا رسانی کا سلسلہ پہلے سے فزوں تر اور سخت تر ہو گیا۔ان ہی دنوں قریش کے سرکشوں کے دماغ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خآتمے کی ایک تجویز ابھری۔لیکن یہی تجویز اور یہی سختیاں مکہ کے جانبازوں میں سے نادرہ روزگار سرفروشوں، یعنی حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے اور انکے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچانے کا سبب بن گئیں۔ جوروجفا کے سلسلہ دراز کے ایک دو نمونے یہ ہیں کہ: ایک روز ابو لہب کا بیٹا عتیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: "میں وَالنَجمِ اِذَا ھَویٰ اور ثُمُّ دَنَا فَتَدَلّیٰ کے ساتھ کفر کرتا ہوں"۔اس کے بعد وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایذا رسانی کے ساتھ مسلّط ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتا پھاڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر تھوک دیا۔اگرچہ تھوک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ پڑا۔ اسی موقع پر نبی صٌی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی کہ اے اللہ! اس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلّط کردے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بددعا قبول ہوئی۔چنانچہ عتیبہ ایک بار قریش کے کچھ لوگوں کے ہمراہ سفر میں گیا۔جب انہوں نے ملک شام کے مقام زرقاء میں پڑاؤ ڈالا تو رات کے وقت شیر نے ان کا چکر لگایا۔ عتیبہ نے دیکھتے ہی کہا: ہائے میری تباہی! یہ خدا کی قسم مجھے کھا جائےگا۔ جیسا کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر بددعا کی ہے۔دیکھو میں شام میں ہوں،لیکن اس نے مکّے میں رہتے ہوئے مجھے مار ڈالا ۔احتیاطاً لوگوں نے عتیبہ کو اپنے اور جانوروں کے گھیرے کے بیچوں بیچ سلایا لیکن رات کو شیر سب کو پھلانگتا ہوا سیدھا عتیبہ کے پاس پہنچا اور سر پکڑ کر ذبح کر ڈالا۔[1] ایک بار عقبہ بن ابی مصیط نے رسول اللہ صٌی اللہ علیہ وسلم کی گردن حالت سجدہ میں اس زور سے روندی کے معلوم ہوتا تھا دونوں آنکھیں نکل آئیں گی۔[2] ابن اسحٰق کی ایک چویل روایت سے بھی قریش کے سرکشوں کے اس ارادے پر
Flag Counter