Maktaba Wahhabi

985 - 644
لے گیا۔ یعنی یہ شخص مسلسل لڑتا رہا، یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھ یکے بعد دیگر ے کاٹ دیے گئے لیکن اس کے بعد بھی اس نے جھنڈا گرنے نہ دیا، بلکہ گھٹنے کے بل بیٹھ کر سینے اور گردن کی مدد سے کھڑا کیے رکھا یہاں تک کہ جان سے مار ڈالاگیا۔ اور اس وقت بھی یہ کہہ رہاتھا کہ یا اللہ ! اب تو میں نے کوئی عذر باقی نہ چھوڑا؟ اس غلام (صواب) کے قتل کے بعد جھنڈا زمین پر گر گیا۔ اور اِسے کوئی اٹھانے والا باقی نہ بچا، اس لیے وہ گراہی رہا۔ بقیہ حصوں میں جنگ کی کیفیت : ایک طرف مشرکین کا جھنڈا معرکے کا مرکزِ ثقل تھا تو دوسری طرف میدان کے بقیہ حصوں میں بھی شدید جنگ جاری تھی۔ مسلمانوں کی صفوں پر ایمان کی رُوح چھائی ہوئی تھی۔ اس لیے وہ شرک وکفر کے لشکر پر اس سیلاب کی طرح ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کے سامنے کوئی بند ٹھہر نہیں پاتا۔ مسلمان اس موقعے پر اَمِتْ اَمِت کہہ رہے تھے۔ اور اس جنگ میں یہی ان کا شعار تھا۔ ادھر ابو دجانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سُرخ پٹی باندھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار تھامے، اور اس کے حق کی ادائیگی کا عزم ِ مصمم کیے پیش قدمی کی۔ اور لڑتے ہوئے دور تک جاگھسے وہ جس مشرک سے ٹکراتے اس کا صفایا کردیتے۔ انہوں نے مشرکین کی صفوں کی صفیں اُلٹ دیں۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلوار مانگی اور آپ نے مجھے نہ دی تو میرے دل پر اس کا اثر ہو ا۔ اور میں نے اپنے جی میں سوچا کہ میں آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ کا بیٹا ہوں ، قریشی ہوں۔ اور میں نے آپ کے پاس جاکر ابو دجانہ سے پہلے تلوار مانگی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ دی ، اور انہیں دے دی۔ اس لیے واللہ ! میں دیکھوں گا کہ وہ اس سے کیا کام لیتے ہیں ؟ چنانچہ میں ان کے پیچھے لگ گیا۔ انہوں نے یہ کیا کہ پہلے اپنی سرخ پٹی نکالی اورسر پر باندھی۔ اس پر انصار نے کہا: ابو دُجانہ نے موت کی پٹی نکال لی ہے۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے۔ أنا الذی عاہدنی خلیلی ونحن بالسفح لدی النخیل أن لا أقوم الدہر في الکیول اضرب بسیف اللّٰه والرسول
Flag Counter