Maktaba Wahhabi

845 - 644
تھا کہ قوم کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبادہ بن نضلہ نے کہا : تم لوگ جانتے ہوکہ ان سے (اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا ) کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ جی ہاں کی آوازوں پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کر دیئے جائیں گے تو تم ان کا ساتھ چھوڑ دوگے تو ابھی سے چھوڑ دو۔ کیونکہ اگر تم نے انہیں لے جانے کے بعد چھوڑ دیا تو یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کے باوجود عہدنبھاؤ گے جس کی طرف تم نے انہیں بلایا ہے تو پھر بے شک تم انہیں لے لو۔ کیونکہ یہ اللہ کی قسم دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔ اس پر سب نے بیک آواز کہا : ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں۔ ہاں ! اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت۔ لوگوں نے عرض کی: اپنا ہاتھ پھیلائیے ! آپؐ نے ہاتھ پھیلا یا اور لوگوں نے بیعت کی۔ [1] حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو حضرت اسعد بن زرارہ نے ____جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے : اہل یثرب ! ذراٹھہر جاؤ۔ ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے ۲کلیجے مار کر (لمبا چوڑا سفر کرکے ) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی ، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل ، اور تلواروں کی مار۔ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو۔اور تمہارا اجر اللہپر ہے اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہوگا۔[2] بیعت کی تکمیل: بیعت کی دفعات پہلے ہی طے ہوچکی تھیں ، ایک بار نزاکت کی وضاحت بھی ہوچکی تھی۔ اب یہ تاکید مزید ہوئی تو لوگوں نے بیک آواز کہا : اسعد بن زرارہ ! اپنا ہاتھ ہٹا ؤ۔ اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔[3]
Flag Counter