Maktaba Wahhabi

1082 - 644
صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اللہ کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ اس نے جوبات آپ کو بتائی ہے وہ بات میں نے نہیں کہی ہے۔ اور نہ اسے زبان پر لے آیا ہوں۔ اس وقت وہاں انصار کے جو لوگ موجود تھے انہوں نے بھی کہا: یارسول اللہ ! ابھی وہ لڑکا ہے۔ ممکن ہے اسے وہم ہوگیا ہو۔ اور اس شخص نے جو کچھ کہا تھا اسے ٹھیک ٹھیک یاد نہ رکھ سکا ہو۔ اس لیے آپ نے ابن ابی کی با ت سچ مان لی۔ حضرت زید کا بیان ہے کہ اس پر مجھے ایسا غم لاحق ہوا کہ ویسے غم سے میں کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ میں صدمے سے اپنے گھر میں بیٹھ رہا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ منافقین نازل فرمائی۔ جس میں دونوں باتیں مذکور ہیں۔ ﴿ هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا ﴾(۶۳: ۷) ’’یہ منافقین وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جولوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ چلتے بنیں ‘‘ ﴿ قُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ﴾ (۶۳: ۸) ’’یہ منافقین کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو اس سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔‘‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( اس کے بعد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایا۔ اور یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ، پھر فرمایا : اللہ نے تمہاری تصدیق کردی۔ [1] اس منافق کے صاحبزادے جن کا نام عبد اللہ ہی تھا ، اس کے بالکل برعکس نہایت نیک طینت انسان اور خیارِ صحابہ میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے باپ سے برأت اختیار کرلی۔ اور مدینہ کے دروازے پر تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے۔ جب ان کا باپ عبد اللہ بن اُبیّ وہاں پہنچاتو اس سے بولے : اللہ کی قسم! آپ یہاں سے آگے نہیں بڑھ سکتے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دے دیں۔ کیونکہ حضور عزیز ہیں اور آپ ذلیل ہیں۔ اس کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے تو آپ نے اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ اور تب صاحبزادے نے باپ کا راستہ چھو ڑا۔ عبداللہ بن اُبی کے ان ہی صاحبزادے حضرت عبد اللہ نے آپ سے یہ بھی عرض کی تھی کہ اے اللہ کے رسول ! آپ اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے فرمایئے اللہ کی قسم میں اس کا سر آپ کی خدمت میں حاضر کر دوں گا۔[2]
Flag Counter