Maktaba Wahhabi

1092 - 644
دوسرا پُر پیچ راستہ اختیار کیا جو پہاڑی گھاٹیوں کے درمیان سے ہوکر گزرتا تھا۔ یعنی آپ داہنے جانب کترا کر حمش کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک ایسے راستے پر چلے جو ثنیۃ المرار پر نکلتا تھا۔ ثنیۃالمرار سے حدیبیہ میں اترتے ہیں۔ اور حدیبیہ مکہ کے زیریں علاقہ میں واقع ہے۔ اس راستے کو اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کُراع الغمیم کا وہ مرکزی راستہ جو تنعیم سے گزر کر حرم تک جاتا تھا ، اور جس پر خالد بن ولید کا رسالہ تعینات تھا وہ بائیں جانب چھوٹ گیا۔ خالد نے مسلمانوں کے گرد وغبار کو دیکھ کر جب یہ محسوس کیاکہ انہوں نے راستہ تبدیل کردیا ہے تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور قریش کو اس نئی صورت ِ حال کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بھاگم بھاگ مکہ پہنچے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سفر بدستور جاری رکھا ، جب ثنیۃ المرار پہنچے تو اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگو ں نے کہا : حل حل ، لیکن وہ بیٹھی ہی رہی۔ لوگوں نے کہا : قصواء اڑگئی ہے۔ آپ نے فرمایا :قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ اس کی یہ عادت ہے ، لیکن اسے اس ہستی نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھی کوروک دیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ لوگ کسی بھی ایسے معاملے کا مطالبہ نہیں کریں گے جس میں اللہ کی حُرمتوں کی تعظیم کررہے ہوں لیکن میں اسے ضرور تسلیم کر لوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ، پھر آپ نے راستہ میں تھوڑی سی تبدیلی کی اور اقصائے حدیبیہ میں ایک چشمہ پر نزول فرمایا۔ جس میں تھو ڑا سا پانی تھا اور اسے لوگ ذراذرا سالے رہے تھے، چنانچہ چند ہی لمحوں میں ساراپانی ختم ہوگیا۔ اب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شکایت کی۔ آپ نے ترکش سے ایک تیر نکالا۔ اور حکم دیا کہ چشمے میں ڈال دیں۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد واللہ! اس چشمے سے مسلسل پانی ابلتا رہا یہاں تک کہ تمام لوگ آسودہ ہوکر واپس ہوگئے۔ بدیل بن ورقاء کا توسط : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مطمئن ہوچکے تو بُدَیل بن ورقاء خزاعی اپنے قبیلہ خزاعہ کے چند افراد کی معیّت میں حاضر ہوا۔ تہامہ کے باشندوں میں یہی قبیلہ (خزاعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیر خواہ تھا۔ بدیل نے کہا : میں کعب بن لؤی کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ وہ حدیبیہ کے فراواں پانی پر پڑ اؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمراہ عورتیں اور بچے بھی ہیں۔ وہ آپ سے لڑنے اور آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں۔ قریش کو لڑائیوں نے توڑ ڈالا ہے۔ اور سخت ضرر پہنچا یا ہے اس لیے اگر وہ چاہیں تو ان سے ایک مدت طے کرلوں۔ اور وہ میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ اور اگر وہ چاہیں تو جس چیز میں لوگ داخل ہوئے ہیں اس میں وہ بھی داخل ہوجائیں۔ورنہ ان کو راحت تو حاصل ہی رہے گی۔
Flag Counter