Maktaba Wahhabi

910 - 644
غزوۂ بدر کبریٰ اسلام کا پہلا فیصلہ کن معرکہ غزوے کا سبب: غزوۂ عشیرہ کے ذکر میں ہم بتا چکے ہیں کہ قریش کا ایک قافلہ مکے سے شام جاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفت سے بچ نکلا تھا۔ یہی قافلہ جب شام سے پلٹ کر مکہ واپس آنے ولا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو اس کے حالات کا پتا لگا نے کے لیے شمال کی جانب روانہ فرمایا۔ یہ دونوں صحابی مقامِ حوراء تک تشریف لے گئے اور وہیں ٹھہرے رہے۔ جب ابو سفیان قافلہ لے کر وہاں سے گزرا تو یہ نہایت تیز رفتاری سے مدینہ پلٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی۔ اس قافلے میں اہل مکہ کی بڑی دولت تھی ، یعنی ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم ازکم پچاس ہزار دینار (دوسو ساڑھے باسٹھ کلو سونے ) مالیت کا سازوسامان بار کیا ہو ا تھا درآں حالیکہ اس کی حفاظت کے لیے صرف چالیس آدمی تھے۔ اہل ِ مدینہ کے لیے یہ بڑا زرّین موقع تھا جبکہ اہل ِ مکہ کے لیے اس مالِ فراواں سے محرومی بڑی زبردست فوجی ، سیاسی اور اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اندر اعلان فرمایا کہ یہ قریش کا قافلہ مال ودولت لیے چلا آرہا ہے اس کے لیے نکل پڑو۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بطور ِ غنیمت تمہارے حوالے کردے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پر روانگی ضروری نہیں قرار دی بلکہ اسے محض لوگوں کی رغبت پر چھوڑ دیا کیونکہ اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ قافلے کے بجائے لشکر ِ قریش کے ساتھ میدانِ بدر میں ایک نہایت پُر زور ٹکر ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینے ہی میں رہ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر آپ کی گزشتہ عام فوجی مہمات سے مختلف نہ ہوگا۔ اور اسی لیے اس غزوے میں شریک نہ ہونے والوں سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔ اسلامی لشکر کی تعداد اور کمان کی تقسیم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روانگی کے لیے تیار ہوئے تو آپ کے ہمراہ کچھ
Flag Counter