Maktaba Wahhabi

1088 - 644
کے ساتھ تھا۔ جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکے تو آپ کے حکم سے ہم لوگوں نے چھاپہ مارا۔ اور چشمے پر دھاوا بول دیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو قتل کیا۔ میں نے ایک گروہ کو دیکھا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ لوگ مجھ سے پہلے پہاڑ پر نہ پہنچ جائیں۔ اس لیے میں نے ان کو جالیا اور ان کے اور پہاڑ کے درمیان ایک تیر چلایا۔ تیر دیکھ کر یہ لوگ ٹھہر گئے۔ ان میں ام قرفہ نامی ایک عورت تھی جس کے اوپر ایک پرانی پوستین تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو عرب کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے تھی۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا۔ انہوں نے وہ لڑکی مجھے عطاکی ، لیکن میں نے اس کا کپڑا نہ کھولا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لڑکی حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مانگ کر مکہ بھیج دی۔ اور اس کے عوض وہاں کے متعدد مسلمان قیدیوں کو رہا کرا لیا۔[1] ام قرفہ ایک شیطان عورت تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کیا کرتی تھی۔ اور ا س مقصد کے لیے اس نے اپنے خاندان کے تیس سوار بھی تیار کیے تھے ، لہٰذا اسے ٹھیک بدلہ مل گیا اور اس کے تیسوں سوار مارے گئے۔ ۴۔ سر یہ عرنییّن : یہ سریہ شوال ۶ ھ میں حضرت کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہ [2]2کی قیادت میں روانہ کیا گیا اس کا سبب یہ ہوا کہ عکل اور عُرینہ کے چند افراد نے مدینہ آکر اسلام کا اظہار کیا اور مدینہ ہی میں قیام کیا ، لیکن ان کے لیے مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا اور حکم دیا کہ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیئیں۔ جب یہ لوگ تندرست ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راعی کو قتل کردیا۔ اونٹوں کو ہانک لے گئے۔ اور اظہارِ اسلام کے بعد اب پھر کفر اختیار کیا۔ لہٰذارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تلاش کے لیے کرز بن جابر فہری کو بیس صحابہ کی معیت میں روانہ فرمایا، اور یہ دعافرمائی کہ : اے اللہ عُرنیوں پر راستہ اندھا کردے اور کنگن سے بھی زیادہ تنگ بنا دے۔ اللہ نے یہ دعا قبول فرمائی ، ان پر راستہ اندھا کردیا۔ چنانچہ وہ پکڑ لیے گئے اور انہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ جو کچھ کیا تھا اس کے قصاص اور بدلے کے طور پر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے۔ آنکھیں داغ دی گئیں۔ اور انھیں حرّہ کے ایک گوشے میں چھوڑ دیا گیا۔ جہاں وہ زمین کریدتے کریدتے اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچ گئے [3]ان کا واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔[4]
Flag Counter