Maktaba Wahhabi

718 - 644
اور کہنے لگے: محمد قتل کر دیا گیا۔ ان کے گھر کے لوگ جھٹ پٹ پہنچے ، دیکھا تو آپ کا رنگ اترا ہوا تھا۔ [1] ماں کی آغوشِ محبت میں: اس واقعے سے حلیمہ رضی اللہ عنہ کو خطرہ محسوس ہوا اور انھوں نے آپ کو آپ کی ماں کے حوالے کردیا۔ چنانچہ آپ چھ سال کی عمر تک والدہ ہی کی آغوشِ محبت میں رہے۔ [2] ادھر آمنہ کا ارادہ ہوا کہ وہ اپنے متوفی شوہر کی یادِ وفا میں یثرب جاکر ان کی قبر کی زیارت کریں۔ چنانچہ وہ اپنے یتیم بچے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خادمہ اُمِّ ایمن اور اپنے سر پرست عبد المطلب کی معیت میں کوئی پانچ سو کیلو میٹر کی مسافت طے کر کے مدینہ تشریف لے گئیں اور وہاں ایک ماہ تک قیام کر کے واپس ہوئیں۔ لیکن ابھی ابتداء راہ میں تھیں کہ بیماری نے آلیا۔ پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام اَبْوَاء میں پہنچ کر رحلت کر گئیں۔ [3] دادا کے سایۂ شفقت میں: بوڑھے عبد المطلب اپنے پوتے کو لے کر مکہ پہنچے۔ ان کا دل اپنے اس یتیم پوتے کی محبت وشفقت کے جذبات سے تپ رہا تھا۔ کیونکہ اب اسے ایک نیا چرکا لگا تھا جس نے پرانے زخم کرید دیئے تھے۔ عبد المطلب کے جذبات میں پوتے کے لیے ایسی رِقّت تھی کہ ان کی اپنی صُلبی اوّلاد میں سے بھی کسی کے لیے ایسی رقت نہ تھی۔ چنانچہ قسمت نے آپ کو تنہائی کے جس صحرا میں لا کھڑا کیا تھا عبد المطلب اس میں آپ کو تنہا چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ آپ کو اپنی اوّلاد سے بھی بڑھ کر چاہتے تھے اور بڑوں کی طرح ان کا احترام کرتے تھے۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سائے میں فرش بچھایا جاتا۔ ان کے سارے لڑکے فرش کے ارد گرد بیٹھ جاتے۔ عبد المطلب تشریف لاتے تو فرش پر بیٹھتے۔ ان کی عظمت کے پیش نظر ان کا کوئی لڑکا فرش پر نہ بیٹھتا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو فرش ہی پر بیٹھ جاتے۔ ابھی آپ کم عمر بچے تھے۔ آپ کے چچا حضرات آپ کو پکڑ کر اتار دیتے لیکن جب عبد المطلب انہیں ایسا کرتے دیکھتے تو فرماتے : میرے اس بیٹے کو چھوڑ دو، اللہ کی قسم ! اس کی شان نرالی ہے، پھر انہیں اپنے ساتھ اپنے فرش پر بٹھا لیتے۔ اپنے ہاتھ سے پیٹھ سہلاتے اور ان کی نقل وحرکت دیکھ کر خوش ہوتے۔ [4] آپ کی عمر ابھی ۸ سال دومہینے دس دن کی ہوئی تھی کہ دادا عبد المطلب کا بھی سایۂ شفقت اُٹھ
Flag Counter