Maktaba Wahhabi

1279 - 644
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عطار کے عطر دانسے نکالا ہے۔[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا۔ اور حضرت اُم سُلَیْم کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔[2] حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور گذرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم یا پسینہ کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔[3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مُبارک ہی کے مشابہ تھی۔ یہ بائیں کندھے کی کری (نرم ہڈی) کے پاس تھی۔ اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔[4] کمال ِنفس اور مکارمِ اخلاق: نبی صلی اللہ علیہ وسلم فصاحت وبلاغت میں ممتاز تھے۔ آپ طبیعت کی روانی ، لفظ کے نکھار ، فقروں کی جزالت، معانی کی صحت ، اور تکلف سے دوری کے ساتھ ساتھ جوامع الکلم (جامع باتوں ) سے نوازے گئے تھے۔ آپ کو نادر حکمتوں اور عرب کی تمام زبانوں کا علم عطا ہو ا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قبیلے سے اسی کی زبان اور محاوروں میں گفتگو فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں بدویوں کا زورِ بیان اور قوت ِ تخاطب اور شہریوں کی شستگی ٔ الفاظ اور شفتگی ٔوشائستگی جمع تھی اور وحی پر مبنی تائید ربانی الگ سے۔ بُردباری ، قوت ِ برداشت ، قدرت پاکر درگذر اور مشکلات پر صبر ایسے اوصاف تھے جن کے ذریعہ اللہ نے آپ کی تربیت کی تھی۔ ہر حلیم وبردبارکی کو ئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی ہفوات جانی جاتی ہے ، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندیٔ کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ کے خلاف دشمنوں کی ایذا رسانی اور بدمعاشوں کی خود سری و زیادتی جس قدر بڑھتی گئی ، آپ کے صبر و حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو کاموں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ وہی کام اختیار فرماتے جو آسان ہوتا ، جب تک کہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر گناہ کاکام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے نفس کے لیے انتقام نہ لیا، البتہ اگر اللہ کی حرمت چاک کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے لیے انتقام لیتے۔[5] آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر غیظ و غضب سے دور تھے۔ اور سب سے جلد راضی ہوجاتے تھے۔
Flag Counter