Maktaba Wahhabi

1080 - 644
یہ منافقین کی حرکتوں اور کارروائیوں کی طرف ایک طائرانہ اشارہ اور ان کاایک مختصر ساخاکہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ ساری حرکتیں صبر ، نرمی اور تلطف کے ساتھ برداشت کررہے تھے۔ اور عام مسلمان بھی ان کے شر سے دامن بچا کر صبر و برداشت کے ساتھ رہ رہے تھے۔ کیونکہ انہیں تجربہ تھا کہ منافقین قدرت کی طرف سے رہ رہ کر رسواکیے جاتے رہیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہے : ﴿ أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ﴾ (۹: ۱۲۶) ’’وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں ہر سال ایک بار یادو بار فتنے میں ڈالاجاتا ہے، پھروہ نہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘ غزوۂ بنوالمصطلق میں منافقین کا کردار جب غزوہ بنی المصطلق پیش آیا۔ اور منافقین بھی اس میں شریک ہوئے، تو انہوں نے ٹھیک وہی کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے: ﴿ لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ ﴾(۹: ۴۷) ’’اگر وہ تمہارے اندر نکلتے تو تمہیں مزید فساد ہی سے دوچار کرتے اور فتنے کی تلاش میں تمہارے اندر تگ ودو کرتے۔‘‘ چنانچہ اس غزوے میں انہیں بھڑاس نکالنے کے دو مواقع ہاتھ آئے۔ جس کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں خاصا اضطراب وانتشار مچایا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدترین پر وپیگنڈہ کیا۔ ان دونوں مواقع کی کسی قدر تفصیلات یہ ہیں : ۱۔ مدینہ سے ذلیل ترین آدمی کو نکالنے کی بات : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بنی المصطلق سے فارغ ہوکر ابھی چشمہ مُریسیع پر قیام فرماہی تھے کہ کچھ لوگ پانی لینے گئے ان ہی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک مزدور بھی تھا۔ جس کا نام جَہْجَاہ غِفاری تھا۔ پانی پر ایک اور شخص سنان بن وبرجُہنی سے اس کی دھکم دھکا ہوگئی۔ اور دونوں لڑپڑے۔ پھر جُہنی نے پکارا : یا معشر الانصار (انصار کے لوگو! مدد کو پہنچو ) اور جہجاہ نے آوازدی : یامعشر المہاجرین (مہاجرین ! مدد کو آؤ!) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خبر پاتے ہی وہاں تشریف لے گئے۔ اور )فرمایا: میں تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ؟ اسے چھوڑو، یہ بدبودار ہے۔
Flag Counter