Maktaba Wahhabi

108 - 614
بھی اپنے وصیت نامہ میں اس بات کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ مفید الاحناف، ص:2) امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی اپنے مسلک کی حمایت کے لیے احادیث قراء ت کی تاویل کو ضروری خیال کیا ہے۔چنانچہ لکھتے ہیں: ( مَنْ قَرَأَہَا مِنَ الصّحَابَۃِ یَحْتَمِلُ أَنْ یَّکُوْنَ عَلٰی وَجْہِ الدُّعَائِ لَا التِّلَاوَۃِ) ”ممکن ہے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جنازے میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھی انھوں نے تلاوت وقراء ت کی بجائے بطورِ دعا پڑھی ہو۔‘‘ حالانکہ اس تاویل کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ احادیث میں تو ’فاتحہ الکتاب‘‘ کی قراء ت کے ساتھ ایک سورت کا بھی ذکر ہے جس میں علی وجہ الدعاء والی تاویل ممکن نہیں، اور پھر یہ محض دعویٰ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں۔ چنانچہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَ ھٰذَا بَاطِلٌ لِأَنَّہُمْ ثَبَتَ عَنْہُمْ الْاَمْرُ بِالْقِرَائَ ۃِ وَ اِنَّہَا سُنَّتُہَا فَقَوْلُ مَنْ قَالَ: لَعَلَّہُمْ قَرَئُ اوْہَا دَعَائً کَذِبٌ بَحْتٌ) یعنی ’’بطور دعاء والا نظریہ باطل ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے قراء ت کا حکم ثابت ہے اور یہ نماز جنازہ میں مسنون ہے۔ پس جن لوگوں نے کہا ہے کہ ممکن ہے انھوں نے فاتحہ کو بطور دعا پڑھا ہو سفید جھوٹ ہے۔‘‘ ان اصحابِ قیاس پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو نماز جنازہ کو نماز کہتے ہیں اس میں تکبیر، استقبال قبلہ، امامت رجال، طہارت، سلام واجب قرار دیتے ہیں اور پھر قراء ت کو ساقط کرتے ہیں۔ حالاں کہ حدیث ( لاَ صَـلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ)[1] اپنے عموم کے اعتبار سے نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔ لہٰذا سابقہ دلائل کے بعد ان بے اصل تاویلات کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں۔ اب جنازے میں ’’سورۃ الفاتحہ‘‘ کا پڑھنا جائز کی بجائے واجب ماننا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پھر یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ حنفیہ کے نزدیک سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ پڑھنا مسنون ہے۔ حالانکہ جنازے میں اس کا اصلاً ثبوت نہیں ہے (جیسا کہ امام احمد بن حنبل وغیرہ نے تصریح کی ہے) اور قراء ت کی نفی کرتے ہیں جو کہ احادیث وآثار سے ثابت ہے۔ (کتاب احکام جنائز) لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے صحیح طرق سے صرف نظر کرکے محض ضعیف طریق پر اعتماد کر بیٹھنا سراسر بے انصافی اور دَھونس ہے۔ امید ہے راہِ حق کے متلاشی کے لیے یہ چند دلائل کافی ہوں گے۔ والتوفیق بید اللہ (16 جنوری2009ء)
Flag Counter