Maktaba Wahhabi

311 - 614
کبھی اس کے پاس100عدد بھینس ہوتی ہیں۔ کبھی 20 عدد۔ کیا زکوٰۃ ہر سال کسی مخصوص ماہ میں ادا کرنی ہے۔ یا مختلف بھینسوں پر سال گزرنے پر۔ کیا مویشیوں کے علاوہ ٹرانسپورٹر اور دوسرے شخص پر بھی زکوٰۃ ہے یا نہیں، ہے تو کیسے ؟ نہیں تو کیوں؟ (سائل محمد اکرم) (26 اپریل 1996ء) جواب۔ مذکورہ صورت میں جملہ افراد پر علیحدہ علیحدہ زکوٰۃ واجب ہے لیکن ان کی نوعیت مختلف ہے۔ مثلاً مالِ تجارت کا سال بعد حساب لگا کر چاہے جونسا مہینہ ہو، زکوٰۃ ادا کی جائے۔ مکانوں اورزمینوں اور دیگر ذرائع آمدن وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں لیکن جو کچھ ان سے حاصل ہو اس پر زکوٰۃ ہے۔ ہاں البتہ اگر کسی شئے کو بہ نیت تجارت خرید کیا گیا ہو تو اس پر بھی زکوٰۃ ہے۔ حدیث میں ہے: (فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَۃَ مِنَ الَّذِی نُعِدُّ لِلْبَیْعِ)[1] اس کی ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کواصل قرار دے کر چالیسواں حصہ ادا کی جائے۔ البتہ بھینسوں کا نصاب تیس میں سے ایک سالہ بچہ ہے۔ جس طرح گائے کے نصاب میں ہے اور اگر یہ تجارت کے لیے ہے تو سال بعد قیمت کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کی جائے۔ دلیل حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی سابقہ روایت ہے۔ چلتے ہوئے کاروبار کی شکل میں اگر رقم پاس جمع نہ رہے تو اس کی زکوٰۃ کا حکم سوال۔ایسا کاروبار جس میں رقم جمع نہیں ہوتی۔ رقم آتی ہے خرچ ہو جاتی ہے ، مثلاً تاجر ایک چیز دس ہزار کی لے کر گیارہ ہزار کی بیچ دیتا ہے پھر اور چیز لے آتا ہے سال کے بعد زکوٰۃ کا حساب کیسے کیا جائے گا؟ کپڑے کی دکان یا کریانے کی دکان کا حساب سال کے بعد اندازے سے کیا جائے گا،یا تھانوں کی گنتی اور سامان کاوزن کرکے؟ (ظفر اقبال ، گوجرانوالہ) (31جنوری 2003ء) جواب۔ جو چیز سال بھر جمع نہ رہے خرچ ہو جائے اس میں زکاۃ نہیں۔ نیز جو اشیاء دکان میں موجود ہیں سال گزرنے پر ان کی مالیت کا حساب لگا کر زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی۔ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بسند حسن حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ( فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَۃَ مِنَ الَّذِی نُعِدُّ لِلْبَیْعِ) [2] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ تجارتی مال سے ہم زکوٰۃ ادا کریں۔‘‘
Flag Counter