Maktaba Wahhabi

176 - 614
”یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی فرمایا: اے اللہ ! عبید ابوعامر کو معاف کردے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی ، یعنی اس قدر ہاتھ بلند کیے۔ پھر فرمایا اے اللہ! قیامت کے دن اسے اپنی مخلوق میں سے بہت پر فائق فرما۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے تین دن بعد دفنانے میں کیا حکمت تھی؟ سوال۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے تین دن بعد دفنانے کا کیا جواز تھا؟حالانکہ حدیث میں میت کو جلدی دفنانے کا حکم موجود ہے؟ جواب۔ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص حالات کیو جہ سے آپ کے جنازہ میں تاخیر ہوئی۔ مثلاً آپ کو دفن کہاں کیا جائے ، اور غسل کاطریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ کپڑے اتار کر دیا جائے یا کپڑوں سمیت وغیرہ وغیرہ۔ مکمل اطمینان کے بعد آخری مرحلہ کی تکمیل ہوئی۔ میت کی خواہش کے مطابق قبرستان سے علیحدہ رہائشی جگہ کے صحن میں دفن کرنا؟ سوال۔کیا میت کو حسبِ خواہش قبرستان سے علیحدہ رہائشی جگہ کے صحن میں دفن کیا جا سکتا ہے؟ (عبد الرزاق اختر، محمدی چوک، حبیب کالونی گلی نمبر 12، رحیم یار خان) (مارچ 2005) جواب۔ میت کو رہائشی جگہ میں دفن نہیں کرنا چاہیے، ’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ( فَإِنْ أَذِنَتْ لِیْ فَادْفِنُوْنِیْ وَإِلَّا فَرُدُّوْنِیْ اِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِیْنَ)[1] یعنی ’’اگر ام المومنین رضی اللہ عنہا مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت دے دیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ دفن کا اصل مقام قبرستان ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے: ( لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ ) [2] ”اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت رقم طراز ہیں: ( فَإِنَّ ظَاہِرَہٗ یَقْتَضِی النَّھْیَ عَنِ الدَّفْنِ فِی الْبُیُوْتِ مُطْلَقًا)[3]
Flag Counter