Maktaba Wahhabi

247 - 614
اَفْطَرْتُ) کسی حدیث صحیح سے ثابت ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ والسلام (سائل حافظ محمدمنیر جاوید،وڈانہ) (9 فروری 1996ء) جواب۔ اوّل الذکر دونوں دعاؤں کے بارے میں علامہ ملاّ علی قاری حنفی نے ’’المرقاۃ‘‘ میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ : ”شرع میں ان کا کوئی اصل نہیں اگرچہ معنی اس کادرست ہے۔ اسی طرح (وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ لِصَوْمِ غَدٍ نَوَیْتُ) زبانی نیت کرنا بدعت حسنہ ہے۔‘‘ مذکور عبارت پر نقد کرتے ہوئے صاحب ’’المرعاۃ‘‘ رقمطراز ہیں: ” نماز روزہ کے لیے زبانی نیت کرنے کا کتاب و سنت اور کسی صحابی سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ محض رائے اور بدعتِ سَیّئہ ہے جس کا ترک ضروری ہے۔‘‘ (3/226) اور روزہ کی افطاری کے وقت آخر الذکر دعاء یعنی (اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ… الخ) ’’سنن ابو داؤد‘‘ اور ’’المراسیل‘‘ میں موجود ہے۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ نے روایت ہذا کو فی الجملہ قابلِ تمسّک سمجھا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَ ہُوَ مَعَ اِرْسَالِہٖ حُجَّۃٌ فِیْ مِثْلِ ذٰلِکَ) البتہ علامہ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ ارواء الغلیل(4/38۔39) واضح ہو کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں افطاری کے وقت پڑھنے کی ایک اور دعاء بھی مرقوم ہے جس کے الفاظ یوں ہیں: ( ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ )[1] علامہ موصوف نے حدیث ہذا کو حسن قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل 4/39) ”منار السبیل‘‘ اور ’’الکلم الطیب‘‘ وغیرہ میں مزید دعائیں بھی ابن عمر رضی اللہ عنھما اور ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایات میں موجود ہیں لیکن سندوں کے اعتبار سے وہ بھی ضعیف ہیں۔ علامہ البانی ’’الکلم الطیب‘‘ کے حواشی پر فرماتے ہیں: (وَالثَّابِتُ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی ) (ص: 92) یعنی اس بیان میں جو شئے ثابت ہے وہ یہ دعا ہے: (ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ) [2] یعنی پیاس جاتی رہی اور رگیں تَر ہو گئیں اور اجر و ثواب یقینا ثابت شدہ ہے۔‘‘ان شاء اللہ تعالیٰ
Flag Counter