Maktaba Wahhabi

341 - 614
(بَابُُ الْعُمْرَۃَ ۔ بَابُ وُجُوبِ العُمْرَۃِ وَفَضْلِہَا۔ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْہُمَا : لَیْسَ أَحَدٌ إِلَّا وَعَلَیْہِ حَجَّۃٌ، وَعُمْرَۃٌ) ”ابن عمر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ ہر ایک پر حج اور عمرہ فرض ہے۔‘‘ اس تعلیق کو ابن خزیمہ ،دارقطنی اور ’’حاکم‘‘ نے ابن جریج کے طریق سے موصول بیان کیا ہے۔ حنفیہ اور مالکیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ عمرہ نفلی عمل ہے۔ جن چند روایات سے ان کا استدلال ہے، اُن میں سے زیادہ تر ضعیف ہیں۔ جب کہ وجوب ِ عمرہ کے بارے میں کئی ایک احادیث وارد ہیں۔ ان میں سے حدیث ِ جبریل میں ہے کہ جب انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ، وَأَنْ تُقِیمَ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ وَتَعْتَمِرَ، وَتَغْتَسِلَ مِنَ الْجَنَابَۃِ، وَأَنْ تُتِمَّ الْوُضُوئَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ) [1] ”اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِبرحق نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرو، غسلِ جنابت کرو اور وضو پورا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ اس حدیث کو ابن خزیمہ اور دارقطنی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: (ھٰذَا اِسْنَادٌ ثَابِتٌ صَحِیْحٌ) ’’یہ اسناد صحیح ثابت ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے ؟ فرمایا: ( نَعَمْ، عَلَیْہِنَّ جِہَادٌ، لَا قِتَالَ فِیہِ: الْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ) [2] ”ان کے ذمے ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں، وہ حج اور عمرہ ہے۔‘‘ یہ حدیث ’’مسند احمد‘‘ اور ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں بسند صحیح موجود ہے، جب کہ ’’سنن ترمذی ‘‘ میں ہے: (تَابِعُوا بَیْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَۃِ)[3]
Flag Counter