Maktaba Wahhabi

375 - 614
متعین ہوگئی۔ پھر (=/5000) کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اب زید کہتا ہے کہ میں بھی اس گائے میں اپنا حصہ بصورتِ قربانی کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا تم مجھے چھ حصوں کے پیسے دے دو۔ جب کہ زید کی اس گائے میں پہلے سے قربانی کے لیے کوئی نیت نہ تھی۔ وقتی طور پر تیار ہوا ہے۔ ہمیں تو بظاہر اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی۔ تاہم شرعی فیصلہ مطلوب ہے جب کہ اس تقسیم عمل کو حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاویٰ میں غیر درست و مشکوک کہا ہے۔ 2۔ زید نے ایک گائے خرید کی ہے اب اس میں بغیر منافع کے اصل رقم پر اپنا حصہ شامل کرکے قربانی کرسکتا ہے۔ یعنی دی ہوئی رقم کے سات حصے ہوئے اپنا حصہ چھوڑ کر باقی اپنی اصل رقم سے چھ حصے وصول کرتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ (ایک سائل ) (22 ۔ اگست 1997ء) جواب۔ اصل بات یہ ہے کہ شرعی حدود و قیود دو قسموں پر مشتمل ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جس میں شراکت کا جواز نہیں۔ جیسے کفارہ ٔ قتلِ خطا ہے۔ جرم میں تعدد افراد کی صورت میں ہر ایک کو مستقلاً کفارہ خطا ادا کرنا ہو گا اوردوسری قسم اس کے برعکس ہے۔ مثلاً کسی نے مسجد کے لیے قطعہ اراضی وقف کیا تو بعد ازاں بالفعل یہاں مسجد تعمیر ہو گئی۔ تو بلاشبہ واقف یہاں خود بھی نماز پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح زید کے زرخرید یا خود پالے ہوئے جانور میں بھی شراکت کا جواز ہے کیونکہ شریعت نے انتفاع کی اجازت دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار میں ایک شخص کو قربانی کا جانور لے جاتے دیکھ کر فرمایا: (اِرْکَبْہَا)[1] ’’اس پر سوار ہو جا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (ہَلْ یَنْتَفِعُ الوَاقِفُ بِوَقْفِہِ؟)کے تحت رقمطراز ہیں: ( وَقَدْ اشْتَرَطَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْہُ : لاَ جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِیَہُ أَنْ یَأْکُلَ مِنْہَا وَقَدْ یَلِی الوَاقِفُ وَغَیْرُہُ، وَکَذَلِکَ کُلُّ مَنْ جَعَلَ بَدَنَۃً أَوْ شَیْئًا لِلَّہِ، فَلَہُ أَنْ یَنْتَفِعَ بِہَا کَمَا یَنْتَفِعُ غَیْرُہُ، وَإِنْ لَمْ یَشْتَرِطْ ) پھر شریعت میں وقف مشاع کا جواز بھی اس امر کامؤید ہے ۔’’صحیح بخاری‘‘کی تبویب میں ہے: (بَابُ إِذَا أَوْقَفَ جَمَاعَۃٌ أَرْضًا مُشَاعًا فَہُوَ جَائِزٌ) یعنی چند افراد مل کر مشترکہ زمین کو وقف کردیں تواس کاجواز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کی قربانی میں شراکت کی عمومیت اجازت فرمائی ہے کہ سات افراد اس میں شرکت کرسکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو مستثنیٰ قرارنہیں دیا۔ اس کا تقاضا ہے کہ بائع خود بھی بقدر حصہ اس میں شریک ہو سکتا ہے۔اور ایک دم ایک کی طرف سے وہاں ہوتا ہے جہاں پر شرعی اجازت موجود نہ ہو۔ جب کہ محل بحث میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ فقیہ ابن قدامہ بھی مطلق اشتراک کے قائل ہیں۔
Flag Counter