Maktaba Wahhabi

473 - 614
”نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جب رمضان کے روزوں سے فارغ ہوتے اور حج کا قصد ہوتا تو سر اور ڈاڑھی کے بال نہ لیتے حتی کہ حج کرتے۔‘‘ مذکورہ الفاظ پر بار بار غور فرمائیں۔ یہ واضح طور پر دال ہیں کہ ما سوائے مخصوص ایام کے ان کا یہ فعل دائمی تھا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( الَّذِی یظْہَرُ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ لَا یَخُصُّ ہَذَا التَّخْصِیصَ بِالنُّسُکِ بَلْ کَانَ یَحْمِلُ الْأَمْرَ بِالْإِعْفَائِ عَلَی غَیْرِ الْحَالَۃِ الَّتِی تَتَشَوَّہُ فِیہَا الصُّورَۃُ بِإِفْرَاطِ طُولِ شَعْرِ اللِّحْیَۃِ أَوْ عَرْضِہِ) [1] ”یعنی جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا یہ فعل نسک کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ وہ اعفاء اللحیۃ کا امر اس حالت پر محمول کرتے تھے کہ ڈاڑھی کے طول و عرض میں افراط کی وجہ سے شکل و صورت قبیح نہ ہونے پائے۔ ‘‘ نیز شیخنا مجتہد العصر محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کا فعل، سو اس سے مجھے اتنا تردد ہے اگر غیر حج عمرے میں ڈاڑھی کو چھیڑنا ناجائز ہوتا تو ناجائز کام حج اور عمرے میں کس طرح جائز ہو گیا؟ احرام سے نکلنے کے لیے وہی کام کیا جاتا ہے جو غیر احرام میں جائز ہو۔ خاص طور پر جب ظاہر الفاظ قرآن میں سرمنڈانے کا ذکر ہے اور احادیث میں اس کا ذکر ہے تو آیت کو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے ڈاڑھی کے کٹانے پر کس طرح چسپاں کرلیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ غیر حج عمرے میں وہ کٹانے کے قائل تھے۔ اس لیے حج عمرے میں سر کے علاوہ بقیہ حجامت(ناخن وغیرہ) کی طرح مٹھی سے زائد ڈاڑھی بھی کٹا لیتے۔ اور چونکہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما حدیث اِعْفُوا اللِّحٰی (ڈاڑھیاں بڑھاؤ) کے راوی ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صحابی کا خیال ہے حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاید اس کو حدیث نہ پہنچی ہو۔ کیونکہ حدیث تو وہ خود روایت کررہے ہیں۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذرا سی بات میں خلاف برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عادت کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل صادر ہوتا تو اس میں بھی موافقت کی کوشش کرتے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سند لی ہے۔ ورنہ ڈاڑھیاں بڑھانے کی حدیث کے راوی ہو کر ایک ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرتے۔ اس لیے اگر کوئی شخص مٹھی سے زائد کٹائے تو اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے۔ ہاں افضل یہی ہے کہ مٹھی سے زائد نہ کٹائی جائے۔ (جلد سوم،ص:337۔338) علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کا جواب محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں گزر چکا۔ امام طحاوی کی طرف منسوب حدیث کی بناء پر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ائمہ دین پر کیا فتوی چسپاں کریں گے جن کا عمل
Flag Counter