Maktaba Wahhabi

520 - 614
جواب۔ اویس قرنی کے فضائل و مناقب ’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ میں موجود ہیں، وہاں سے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں، آپ نے اس کو خیر التابعین قرار دیا ہے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ( فَمُرُوہُ فَلْیَسْتَغْفِرْ لَکُمْ) [1] یعنی ’’اے میرے صحابہ رضی اللہ عنھم اس سے اپنے لیے دعا استغفار کرانا۔‘‘ مشکوٰۃ کے حاشیہ پر ہے اس حدیث سے اویس قرنی کی بڑی عمدہ فضیلت ثابت ہوئی۔ اویس قرنی تابعین میں سے ہے۔ صحابی نہیں۔ ہر چند حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں موجود تھے۔ لیکن ماں کی خدمت سے فرست نہ پائی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوتے۔ اس حدیث سے اویس قرنی کی صحابہ پر فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔ اس واسطے کہ تابعین اصحاب سے افضل نہیں ہو سکتا صرف دعا ثابت کرانے سے افضلیت نہیں ہوتی۔ اس واسطے کہ خود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے واسطے بعضے لوگوں سے دعا کروائی ہے۔ بلکہ پانچوں وقت کی اذان میں تمام امت سے اپنے مقامِ محمود کے حاصل ہونے کے واسطے دعا کرنے کو فرمایا ہے۔ (حاشیہ غزنوی: 5484) اس کے بارے میں بہت ساری بے بنیاد باتیں بھی مشہور ہیں۔ مثلاً اس نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض دانت مبارک جنگ احد میں شہید ہو گئے تو اس نے اپنے دانت توڑ لیے۔ صرف اس خیال پر شاید کہ فلاں دانت ہو یا فلاںہو وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح شمس تبریز کے بارے میں بھی لوگ بہت ساری بے پرکی اڑاتے ہیں جن کا کوئی اصل نہیں اور پھر حسین بن منصور حلاج کا تو معاملہ ہی بڑا عجیب ہے۔ زندقہ کے الزام میں اس کو سولی پر چڑھا دیا گیا تھا۔ شیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہتے ہیں: حسین بن منصور حلاج بڑا عابد تھا۔ ہر رات ہزار رکعت نفل پڑھتا۔ جب اس کی زبان سے أَنَا الْحَقُّ ( میں خدا ہوں) کا کلمہ نکلا تو سید الطائفہ جنید بغدادی نے اور دوسرے بزرگوں نے اس کے قتل کا فتویٰ دے دیا۔ اور سولی پر کھینچ دیا۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی(أخبَار الاخْیَار) میں لکھتے ہیں کہ : خواجہ نظام الدین اولیاء سے لوگوں نے پوچھا کہ حسین بن منصور حلاج کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا : مردود ہے۔ جنید نے اس کو مردود لکھا۔ جنید اپنے زمانے کا پیشوا تھا۔ اس کا مردود کہنا سب کا مردود کہنا ہے۔ ”اخبار الاخیار‘‘ میں شاہ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ انھوں نے کہا کہ منصور کو کسی نے پایا کہ اس کی دست گیری کرتا اور جو اس کو غلطی لگی تھی اس سے اس کو روکتا۔ میں اس زمانے میں ہوتا تو اس کی دستگیری کرتا تاکہ وہ اس حد تک نہ پہنچتا۔(فتاویٰ اہل الحدیث:1/53) بہر صورت ان کے بارے میں اس مختصر مجلس میں تفصیلی جائزہ پیش کرنا ممکن نہیں۔ موضوع ہذا پر محققین مولفین کی بے شمار کتابیں بازار میں دستیاب ہیں۔ حقیقت حال پر آگاہی کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔
Flag Counter