Maktaba Wahhabi

529 - 614
اِیْمَانًا ) (الانفال: 2) ”مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔‘‘ نیز فرمایا: (تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ) (الزمر:23) ”جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے تو اس(قرآن) سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم( ہو کر) اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، یہی اللہ کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔‘‘ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تلاوتِ قرآن پیش کی۔ کہا: (قَالَ أَمْسِکْ۔ فَإِذَا عَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ) [1] ”میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن کرنے یا سننے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے اثرات انسان کے دل و دماغ پر ظاہر ہوں نہ کہ اللہ، اللہ ، کمال کمال، یا استاذ ھیہ ھیہ کہہ کر خانہ پُری کی جائے اس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔[2] (2) قراء ت کے اختتام پر (صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم) کہنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔’’صحیح بخاری‘‘وغیرہ میں حدیث ہے: ( مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ) [3] ” یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ متعدد صحابہ کرام کی تلاوت کے تذکرے احادیث کی کتابوں میں مرقوم ہیں لیکن کسی ایک سے بھی یہ کلمات ثابت نہیں ہو سکے۔ اگر کوئی کہے کہ قرآن میں ہے: {قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ}(آل عمران:95) تو جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ کا فرمان اپنی جگہ برحق ہے لیکن اس میں یہ کہاں ہے کہ جب تم تلاوت ختم کرو تو یہ کہو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تلاوت سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(حَسْبُک) [4] ’’تیرے لیے یہ کافی ہے۔‘‘ یہ نہیں فرمایا: (صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْم) اور نہ ابن مسعود
Flag Counter