Maktaba Wahhabi

588 - 614
بالفرض اگر ان کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو الفاظ قرآنی کے عموم کے پیش نظر اس کا اور اس کے جملہ حواریوںکا نام بھی المسلمین ہی ہونا چاہیے تھا، جب کہ واقعات اس کی تکذیب کر رہے ہیں۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ آیت کریمہ میں’’مسلمین‘‘ نام بطورِ صفت بیان ہوا ہے بطورِ علم نہیں۔ چنانچہ سورۃ الاحزاب میں مسلمین ہی کی متعدد دیگر صفات ذکر ہوئی ہیں، اس کے علاوہ ’’مسند امام احمد‘‘ کی صحیح حدیث میں ہے: ( فَادْعُوا الْمُسْلِمِیْنَ بِاَسْمَائِہِمْ بِمَا سَمَّاہُمُ اللّٰہُ عَزَّوَجلَّ : اَلْمُسْلِمِیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، عِبَادَ اللّٰہِ عَزوَّوَجَلَّ) [1] ”پس تم مسلمین کو ان ناموں کے ساتھ پکارو جو نام اللہ عزوجل نے ان کے رکھے ہیں، یعنی مسلمین مومنین، عباد اللہ۔‘‘ مذکورہ آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمین کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے وصفی نام رکھے ہیں، جن سے چنداں انکار ممکن نہیں۔ مزید یہ کہ ان حضرات نے لفظ جماعت کا اضافہ کرکے اپنے فرقے کا نام’’جماعت المسلمین‘‘ رکھا ہے ، جو قرآنی الفاظ پر زیادتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نام ہم نے حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ سے لیا ہے تو پھر بطورِ استدلال قرآنی آیت پیش کرنا درست نہ ہوا، آیت کی بجائے حدیث حذیفہ کا نام لینا چاہیے جب کہ امر واقع یہ ہے کہ حدیث میں اس کا نام و نشان تک نہیں، حدیث میں گول تا (ۃ ئۃ) سے اس طرح جماعۃ المسلمین ہے، جب کہ ان کی جماعت کا نام ، جماعت المسلمین ، لمبی تا سے ہے جو اس کے بے اصل اور جعلی ہونے کی واضح دلیل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مصنوعی جماعت مراد نہیں، بلکہ اس سے مقصود مسلمانوں کی اجتماعی ہے۔ جو امارت و حکومت میں ایک خلیفہ پر مجتمع ہو۔ متعدد احادیث میں اس امر کی تصریح موجود ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا کو ’’کتاب الفتن‘‘ میں ذکر کیا ہے، جس سے مقصود یہ ہے کہ فتنہ و فساد کے زمانے میں مسلمانوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر اس حدیث پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (بَابُ کَیْفَ الْاَمْرُ اِذَا لَمْ تَکُنْ جَمَاعَۃٌ) یعنی جب جماعت نہیں ہوگی تو ایسے وقت میں صورتِ حال کیا ہو گی؟ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں: ”اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایک خلیفہ پر اجتماع سے پہلے اختلاف کی حالت میں مسلم کیا طرزِ عمل اختیار کرے گا؟۔‘‘ [2] نیز حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ میں فرقوں سے مراد سیاسی گروہ بندیاں ہیں جو کسی ایک خلیفہ اور امام کی قیادت سے محروم ہوں۔ جب منزل مقصود ایک ہو تو نام کے اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فرقے نام رکھنے سے نہیں بلکہ عقیدے اور
Flag Counter