Maktaba Wahhabi

250 - 614
حدیث انس رضی اللہ عنہ کو ’’طبرانی‘‘ نے المعجم الصغیر(ج:2،ص:51،52) اور ’’ الدعائ‘‘ (ص نمبر:918) میں روایت کیا ہے۔ صغیر میں اس کے شروع میں بسم اللہ کا اور آخر میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے: (تَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم) مگر اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ اس میں دو علتیں ہیں: اسماعیل بن عمرو البجلی:یہ ضعیف ہے۔ اس کو ’’ابوحاتم ابن عدی‘‘ اور ’’دارقطنی‘‘ وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ملاحظہ ہو :میزان الاعتدال (ج:۱،ص:239) ، دیوان الضعفائ(ج:1،ص:88) اور المغنی فی الضعفاء (ج:1،ص:85) 2۔ اس حدیث میں اسماعیل بن عمرو کا استاد داؤد الزبرقان ہے۔ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں ’’الکاشف‘‘ میں کہا ہے کہ(ضَعَّفُوْہ) یعنی یہ سخت ضعیف ہے۔ کیونکہ (وَاہ بِمَرَّۃٍ لَیْسَ بِشَیْئٍ ضَعِیْفٌ جِدًا )اور (ضَعَّفُوْہُ ) وغیرہ سب ایک ہی درجے کے الفاظ ہیں۔ دیکھئے (مقدمۃ میزان الاعتدال) (ج:1،ص:4) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ راوی متروک ہے اور ازدی نے ان کو کذاب کہا ہے۔ دیکھئے، تقریبا،ص:95۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘(ج:12،ص:14) میں ’’ابن السنی‘‘ نے(480) اور ’’دارقطنی‘‘ (ج:2،ص:185) نے روایت کیا ہے۔ اور اس کی سند بھی سخت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی عبدالملک بن ہارون ہے۔ یحییٰ بن معین نے اس کو ’’کذاب‘‘ ابو حاتم نے ’متروک الحدیث، ذَاہِب الحدیث‘ اور جوزجانی نے ’’دجال کذاب‘‘ کہا ہے۔ سعدی نے ’’دجال‘‘ کہا ہے۔ دیکھئے : الجرح والتعدیل (ج:5،ص:274) احوال الرجال لجوزجانی(ص:77) اور دیوان الضعفاء للذہبی(ج:2،ص:128) اور ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ حدیثیں گھڑنے والوں میں سے ہے۔[1] ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’میزان الاعتدال‘‘(ج:4،ص:285) میں اس کے باپ ہارون کے تذکرے میں اس کے بارے میں کہا ہے کہ:(اَمَّا اِبْنُہٗ عَبْدُالْمَلِکِ فَمَتْرُوْکٌ یَکْذِبُ)’’یعنی وہ متروک ہے اور جھوٹ بولتا تھا۔‘‘ ”الکاشف‘‘(ج:3،ص:189) میں ہارون کے ترجمہ میں کہا ہے : ’’اس کا بیٹا عبدالملک ہالک ہے۔‘‘ احمد، یحییٰ بن معین، ابوحاتم، ابن حبان اور دارقطنی نے ان پر سخت جرح کی ہے جیسا کہ ’’میزان (ج:2،ص:666) میں ہے۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نتائج الافکار‘‘ میں اس کی سند کے بارے میں کہا ہے کہ (وَسَنَدُہُ وَاہٍ جِدًا) اس کی سند انتہائی ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو: الفتوحات الربانیہ(ج:4،ص:341)
Flag Counter