Maktaba Wahhabi

105 - 738
اشارے سے روکیں اور اگر وہ اشارے سے نہ رکے تو اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اسے روکنے کے لیے پیچھے کی جانب دھکیل دیں،جیسا کہ فتح الباری میں اسماعیلی کی روایت کے الفاظ یوں نقل کیے گئے ہیں: ((فَاِنْ اَبٰی فَلْیَجْعَلْ فِیْ صَدْرِہٖ وَیَدْفَعْہُ))[1] ’’اگر وہ رکنے سے انکار کرے تو اپنا ہاتھ اس کے سینے پر رکھے اور اسے پیچھے کی جانب دھکیل دے۔‘‘ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے مروی حدیث جو ہم ذکر کر چکے ہیں،اس کے شروع میں خود ان کا اپنا عمل یوں مذکور ہے کہ ایک جمعہ کے دن وہ سُترہ رکھے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک نوجوان نے آگے سے گزرنا چاہا تو اُنھوں نے اسے روکا،مگر وہ نہ رکا اور جب پھر گزرنا چاہا: ((فَدَفَعَہٗ أَبُوْ سَعِیْدٍ اَشَدَّ مِنَ الْاُوْلٰی فَنَالَ مِنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ)) ’’حضرت ابوسعید رضی اللہ نے اسے پہلے سے سختی کے ساتھ روکا تو وہ نوجوان حضرت ابو سعید رضی اللہ کے گلے پڑگیا۔‘‘ پھر لوگوں کو چیرتا ہوا نکل گیا اور مروان کے پاس شکایت کر دی۔پیچھے ہی حضرت ابو سعید رضی اللہ بھی پہنچ گئے اور وہاں معاملے کی تحقیق کے دوران میں انھوں نے یہ حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ سختی سے روکا جائے گا،لیکن ہاتھ سے،نہ کہ زبان اور اسلحہ وغیرہ سے۔گویا قتال سے مراد گالی گلوچ یا لعنت و بددعا اور قتل و غارت نہیں بلکہ روکنے میں ذرا سختی برتنا ہے جو سینے پر ہاتھ رکھنے یا زیادہ سے زیادہ ہاتھ مارنے تک ہی ہو۔اس روکنے کو اہلِ ظاہر نے واجب قرار دیا ہے،جبکہ جمہور علما اور امام نووی کے بیان کے مطابق شافعیہ نے اسے واجب نہیں بلکہ مندوب و مستحب کہا ہے۔ قاضی عیاض اور امام ابن بطال رضی اللہ عنہ نے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے آگے سے گزرنے لگے تو اسے پہلے اچھے طریقے سے روکیں اور دوسری مرتبہ کچھ سختی سے روکیں،ذرا دُور سے گزرنے لگے تو اشارے سے روکیں،لیکن اس کے لیے اپنی جگہ سے چل کر آگے جانا اور عملِ کثیر جائز نہیں،کیونکہ یہ تو کسی کے آگے سے گزرنے سے بھی بڑھ کر ناجائز عمل ہے۔[2]
Flag Counter