Maktaba Wahhabi

136 - 738
ہے،یہ صحیح بخاری و مسلم میں نہیں ہیں،جیسا کہ علامہ ہیثمی نے وضاحت کی ہے۔صحیحین میں اس حدیث کے سیاق سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ اس واقعے کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سُترہ موجود تھا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحرا میں یا فضا میں اپنے سامنے نیزہ گاڑے بغیر نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔پھر انھوں نے ’’بَابُ سُتْرَۃِ الْاِمَامِ سُتْرَۃُ مَنْ خَلْفَہٗ‘‘ میں اس واقعے پر مشتمل حدیث کے بعد دو حدیثیں وہ بھی وارد کی ہیں جن سے امام بخاری کی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔[1] امام نووی نے بھی مسلم شریف کی شرح میں امام بخاری ہی کی متابعت کی ہے اور اس حدیث کی شرح میں اس کے فوائد ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کا سُترہ ہے۔[2] امام کا سُترہ ہی مقتدی کا سُترہ ہے: اگر نماز باجماعت ہو رہی ہو اور امام نے اپنے سامنے سُترہ رکھ لیا ہو تو اب مقتدیوں کے لیے سُترہ رکھنا ضروری نہیں رہے گا،کیونکہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کے لیے بھی کافی ہو جاتا ہے۔اس بات کا متعدد احادیث سے پتا چلتا ہے،جن میں سے بعض ذکر کی جا چکی ہیں۔ 1۔ ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ اِذَا خَرَجَ یَوْمَ الْعِیْدِ اَمَرَ بِالْحَرْبَۃِ فَتُوْضَعُ بَیْنَ یَدَیْہِ،فَیُصَلِّیْ اِلَیْہَا وَالنَّاسُ وَرَائَ ہٗ،وَکَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السَّفَرِ،فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَہَا الْاُمَرَائُ))[3] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے لیے نکلتے تو برچھا ساتھ لانے کا حکم فرماتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیا جاتا تھا،جس کی طرف منہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے تھے۔سفر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا و امرا نے بھی ایسے ہی کیا۔‘‘
Flag Counter