Maktaba Wahhabi

389 - 738
فرض ہے اور دوسری تکبیراتِ انتقال مندوب و مسنون ہیں۔البتہ حنابلہ کے نزدیک تکبیراتِ انتقال واجب ہیں۔[1] اندازِ تکبیر: اب رہا معاملہ تکبیرات کے انداز کا کہ انھیں کیسے کہا جائے گا؟تو اس سلسلے میں سیدھی سی بات ہے کہ جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ تکبیریں بھی آہستگی ہی سے کہے گا،کیونکہ اس نے کسی کو سنانا نہیں ہوتا،لیکن اگر کوئی شخص دوسروں کو جماعت کرا رہا ہو تو اس میں پیش امام کے لیے ضروری ہے کہ نماز سری ہو یا جہری،وہ تکبیریں بلند آواز ہی سے کہے گا،تاکہ دوسرے لوگ اس کی آواز سن کر اس کی اقتدا کر سکیں،صحیح بخاری اور مسند احمد میں حضرت سعید بن حارث المعلیٰ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ((صَلّٰی بِنَا اَبُوْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ فَجَہَرَ بِالتَّکْبِیْرِ حِیْنَ رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ السُّجُوْدِ وَحِیْنَ سَجَدَ،وَحِیْنَ رَفَعَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ،وَقَالَ:ہٰکَذَا رَاَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم))[2] ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ نے ہمیں نماز پڑھائی اور بلند آواز سے تکبیریں کہیں جب سجدے میں گئے اور جب سجدے سے اٹھے اور جب دو رکعتیں مکمل کر کے اٹھے۔پھر کہا:مَیں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔‘‘ اس حدیث میں تو صرف تین تکبیروں کو بلند آواز سے کہنے کا ذکرآیا ہے جو کہ اختصار ہے،کیونکہ صحیح مسلم،سنن نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہر تکبیر کو سنانے کا ذکر بھی آیا ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ بیان فرماتے ہیں: ((اِشْتَکٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم،فَصَلَّیْنَا وَرَائَ ہٗ،وَہُوَ قَاعِدٌ،وَ اَبُوْ بَکْرٍ یُسْمِعُ النَّاسَ تَکْبِیْرَہٗ)) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہو گئی،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیروں کی آواز پہنچا رہے تھے۔‘‘
Flag Counter