Maktaba Wahhabi

716 - 738
روایت سترہ دن کی ہے تو اس سے دو دن داخلے اور روانگی کے نکال کر پندرہ دن بیان کر دیے ہیں۔اس وضاحت کے ساتھ ہی انھوں نے امام نووی رحمہم اللہ کے پندرہ دنوں والی روایت کو ضعیف قرار دینے پر عدم موافقت کا اظہار کیا ہے اور پھر لکھا ہے کہ اکثر اور صحیح تر احادیث میں انیس دن کا ذکر آیا ہے،لہٰذا یہی سب سے راجح ترین بات ہے۔[1] مسند عبد بن حمید میں بیس دن کا ذکر بھی مروی ہے۔امام شوکانی نے اسے سند کے اعتبار سے صحیح مگر صحیح روایات کے مخالف ہونے کی بنا پر ’’شاذ‘‘ قرار دیا ہے۔[2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری معرکہ حق و باطل غزوۂ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیس دن ٹھہرے اور قصر پڑھتے رہے۔جیسا کہ سنن ابو داود،صحیح ابن حبان،مسند احمد اور سنن بیہقی میں حضرت جابر رضی اللہ سے مروی ہے: ((اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِتَبُوْکَ عِشْرِیْنَ یَوْمًا یَقْصُرُ الصَّلَاۃُ))[3] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دن مقیم رہے اور قصر پڑھتے رہے۔‘‘ اس حدیث کو امام نووی اور علامہ ابن حزم رضی اللہ عنہ نے صحیح قرار دیا ہے۔البتہ امام دارقطنی رحمہم اللہ نے اسے مرسل و منقطع قرار دیا ہے۔[4] مدتِ قصر میں مختلف اقوال: صحیح بخاری،مسند احمد اور سنن ابن ماجہ میں فتح مکہ کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انیس دن قیام کرنے اور قصر کرنے کی بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ کامسلک یہ تھا کہ جب ہم انیس دن سفر میں رہیں گے تو قصر کریں گے اور اگر اس سے زیادہ کا خیال ہوگا تو نماز پوری پڑھیں گے۔امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے اور اسے سب سے قوی قرار دیا ہے۔امام بخاری رحمہم اللہ کا اپنا مسلک بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔صحیح بخاری،مسلم،سنن نسائی،بیہقی اور مسند احمد میں مذکور حجۃ الوداع والے واقعے کے پیش نظر حضرت علی رضی اللہ سے مدتِ قصر صرف دس دن منقول ہے۔
Flag Counter