Maktaba Wahhabi

541 - 738
لیکن یہ روایت منقطع ہے،کیونکہ عبدالجبار کا اپنے والد سے سماع ہی ثابت نہیں ہے۔[1] 4۔ سنن ابو داود،مسند احمد،مصنف عبدالرزاق،سنن کبریٰ بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((نَہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اَنْ یَّعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلٰی یَدِہٖ اِذَا نَہَضَ فِی الصَّلَاۃِ))[2] ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر اٹھے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے ’’المجموع‘‘(3/ 445)میں ضعیف اور علامہ البانی نے ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ‘‘(2/ 389)میں اسے منکر قرار دیا ہے۔ 5۔ سنن کبریٰ بیہقی اور مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے عطیہ عوفی کی روایت ذکر کی جا چکی ہے،جس میں انھوں نے حضرت ابنِ عمر،ابن عباس،ابن الزبیر اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اپنے قدموں کے بل پر اٹھا کرتے تھے۔[3] یہ بھی ذکر ہو چکا ہے کہ وہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔[4] جبکہ معجم طبرانی اوسط میں خاص حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ اٹھتے وقت ہاتھوں کی مٹھیوں پر ٹیک لگا کر اٹھا کرتے تھے۔[5] خلاصۂ کلام: گذشتہ صفحات میں ذکر کی گئی مدلل بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر لمحہ بھر کے لیے بیٹھ جائیں۔یہ جلسۂ استراحت مستحب ہے۔پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر لگائیں۔بہتر ہوگا کہ آٹا گوندھنے کے انداز کی طرح ہاتھوں کی مُٹھیاں بندہوں اور ان کے بل پر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جائیں۔یہاں تک پہلی رکعت سے متعلقہ ضروری احکام و مسائل مکمل ہوگئے ہیں۔وَلِلّٰہ الحَمد!
Flag Counter