Maktaba Wahhabi

647 - 738
دوسرے اشکال کا جواب: دوسرے اشکال کی طرف امام نسائی اور بیہقی رضی اللہ عنہ کا رجحان و میلان ہے،[1] جبکہ اس کی حیثیت بھی پہلے اشکال سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔کیونکہ((یُحَرِّکُہا))اپنے مفہوم ظاہر میں بڑا واضح ہے،لہٰذا اسے اسی پر محمول کرنا ہی اولیٰ ہے،خصوصاً جبکہ امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی تکرارِ حرکت ہی کو اپنایا ہے۔چنانچہ ابن ہانی نے ’’مسائل امام احمد‘‘ میں لکھا ہے: ’’وَسُئِلَ الْاِمَامُ اَحْمَدُ:ہَلْ یُشِیْرُ الرَّجُلُ بِاِصْبَعِہٖ فِیْ الصَّلَاۃِ؟قَالَ:نَعَمْ،شَدِیدًا‘‘[2] ’’امام احمد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ آیا نمازی قعدے میں اشارہ کرے؟انھوں نے فرمایا:ہاں،زور دار طریقے سے۔‘‘ ظاہر ہے کہ انگلی کو محض ایک دفعہ کھڑے کر دینے کو تو ’’شَدِیْداً‘‘ نہیں کہا جا سکتا،بلکہ یہ تو بار بار اور زوردار طریقے سے اٹھانے ہی کو کہا جا سکتا ہے۔ تیسرے اشکال کے جوابات: اب رہا معاملہ تیسرے اشکال کا کہ ایک حدیث میں اگر((یُحرّکہا))کے لفظ سے انگلی کو ہلانے کا پتا چلتا ہے تو دوسری ایک حدیث میں((ولا یحرّکہا))کے الفاظ سے اسے محض کھڑی کیے رکھنے کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ اسے حرکت نہ دی جائے،تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ((ولا یحرّکہا))والی حدیث تو واقعی حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے سنن ابو داود،نسائی،مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں: ((کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُشِیْرُ بِاِصْبَعِہٖ اِذَا دَعَا وَلَا یُحَرِّکُہَا))[3] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کے وقت انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اسے ہلاتے نہیں تھے۔‘‘
Flag Counter