Maktaba Wahhabi

106 - 738
روکنے کی حکمت: اب یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ آگے سے گزرنے والے کو روکنے کا حکم کس لیے ہے؟کیا اس لیے کہ اس سے نمازی کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے؟یا اس لیے کہ اس سے گزرنے والے کو گناہ سے بچانا مقصود ہوتا ہے؟حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن ابی حمزہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان میں سے بہ ظاہر تو یہ دوسری وجہ ہی معقول ہے،جبکہ بعض دیگر اہلِ علم نے کہا ہے کہ اصل وجہ پہلی ہے،کیونکہ نمازی کی اپنی نماز پر توجہ دوسروں کو گناہ سے بچانے سے زیادہ ضروری ہے۔اس بات کی تائید بعض آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ہوتی ہے،چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے مروی ہے: ((إِنَّ الْمُرُوْرَ بَیْنَ یَدَیِ الْمُصَلِّیْ یَقْطَعُ نِصْفَ صَلَاتِہٖ))[1] ’’کسی نمازی کے آگے سے گزرنا،نمازی کے ثواب میں سے آدھا ثواب کم کر دیتا ہے۔‘‘ ’’حلیۃ الأولیاء‘‘ میں ابو نعیم نے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ سے روایت بیان کی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((لَوْ یَعْلَمُ الْمُصَلِّیْ مَا یَنْقُصُ مِنْ صَلَاتِہٖ بِالْمُرُوْرِ بَیْنَ یَدَیْہِ مَا صَلّٰی اِلاَّ اِلٰی شَیْئٍ یَسْتُرُہٗ مِنَ النَّاسِ))[2] ’’اگر نمازی کو معلوم ہو جائے کہ اس کے آگے سے کسی کے گزر جانے سے اس کی نماز(کے ثواب)میں کتنا بڑا نقص واقع ہو جاتا ہے تو وہ کبھی لوگوں سے بچانے والے سُترے کے بغیر نماز نہ پڑھے۔‘‘ ان دونوں آثار و اقوال سے معلوم ہوا کہ آگے سے گزرنے والے کو روکنے کی وجہ نمازی کی نماز میں واقع ہونے والا نقص ہے،نہ کہ گزرنے والا کا گناہ۔یہ دونوں اثر اگرچہ لفظی طور پر دو صحابیوں پر موقوف ہیں،لیکن دراصل ان کا حکم مرفوع حدیث کا ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے سن کر انھوں نے کہا ہوگا،کیونکہ ایسی بات اپنی طرف سے کوئی نہیں کہہ سکتا،کیونکہ یہ کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں
Flag Counter