Maktaba Wahhabi

687 - 738
یہ ہے کہ جنازے میں دو سلام ہیں۔[1] جبکہ دیگر ائمہ و فقہا کے نزدیک ایک سلام پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے،جیسا کہ تفصیل گزری ہے۔جبکہ جنازے کے علاوہ عام نمازوں کے سلسلے میں جمہور اہل علم دو سلاموں ہی کے قائل ہیں،البتہ جن حضرات کا ذکر کیا گیا ہے،وہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ و فقہا رحمہم اللہ ایک ہی سلام پر کفایت کے قائل تھے۔بلکہ یہ عمل بھی مسلسل نہیں بلکہ غالب اوقات میں دو سلام اور کبھی کبھی ایک کی صورت میں ہے۔بہ قول امام بیہقی یہ اختلاف مباح کی قبیل کی قسم سے ہے۔ دو سلاموں کے قائلین میں حضرت ابوبکر صدیق،علی بن ابی طالب اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم،اسی طرح نافع بن عبدالحارث،علقمہ،ابو عبدالرحمن سلمی،عطاء،شعبی،ثوری،شافعی،اسحاق بن راہویہ،ابن المنذر اور اہل رائے(احناف)بھی ہیں۔[2] دو میں سے ایک واجب اور دوسرا سنت: پھر دو سلاموں میں سے ایک کے واجب اور دوسرے کے سنت ہونے یا دونوں کے واجب ہونے میں بھی اہل علم کے مابین اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔امام ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے ایک سلام پر ہی اکتفا کر لیا،اس کی نماز جائز و صحیح ہے،گویا ایک ہی واجب ہے،جبکہ انھوں نے امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ میرے نزدیک دو سلام زیادہ پسندیدہ ہیں اور اس سلسلے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ کی حدیث صحیح تر ہے،لہٰذا میں اسے ہی اختیار کرتا ہوں۔امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنی میں لکھا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے دو سلاموں کو پسند اور اختیار کیا ہے،انھیں واجب قرار نہیں دیا،بلکہ عین ممکن ہے کہ ان کا یہ اختیار وجوب کے بجائے مشروعیت و استحباب کے لیے ہو،جیسا کہ بعض دیگر مسائل میں بھی ان سے ایسے احوال ملتے ہیں،جن میں وہ مشروعیت و استحباب کے پیش نظر ایک چیز کو اختیار کرتے ہیں،لیکن اسے واجب قرار نہیں دیتے۔غرض کہ ایک سلام پھیرنے سے جب آدمی نماز سے نکل جاتا ہے تو دوسری کوئی چیز پھر واجب نہیں رہ جاتی۔اس ساری تفصیل کو صرف فرض نماز کے ساتھ خاص کیا گیا ہے،جبکہ نماز جنازہ نفلی نماز اور سجود و تلاوت کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کی صرف ایک ہی روایت ہے کہ صرف ایک ہی سلام سے نمازی نماز سے نکل جاتا ہے۔[3]
Flag Counter