Maktaba Wahhabi

518 - 738
اور صحیح ابنِ خزیمہ کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ والی حدیث بیان کر چکے ہیں جس میں مذکور ہے: ((۔۔۔ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا))[1] اسی مفہوم کی دیگر احادیث سے اس جلسے میں اطمینان کا وجوب اخذ کیا گیا ہے۔ان دونوں سجدوں کے درمیان کم از کم اتنا بیٹھنا چاہیے کہ جسم کے تمام جوڑ اپنی اپنی جگہ پر آجائیں،کیونکہ سنن ابو داود اور بیہقی میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے ضمن میں اس جلسے کی نسبت مروی ہے: ((۔۔۔یَطْمَئِنُّ حَتَّی یَرْجِعَ کُلُّ عَظْمٍ اِلٰی مَوْضِعِہٖ))[2] طوالت: بیٹھنے میں سکون و اطمینان کس طرح ہو؟اس کا اندازہ تو انہی احادیث سے ہو جاتا ہے جن میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جلسے میں بیٹھنے کی مدت کا ذکر آیا ہے۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم،صحیح ابنِ خزیمہ(1/ 340)اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ رُکُوْعُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَسُجُوْدُہُ وَبَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ وَاِذَا رَفَعَ مِنَ الرُّکُوْعِ مَا خَلَا الْقِیَامِ وَالْقُعُوْدِ قَرِیْبًا مِنَ السَّوَائِ))[3] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع و سجود،جلوس بین السجدتین اور قومہ،یعنی قیام اور قعدہ اخیرہ کو چھوڑ کر باقی برابر برابر ہی ہوتے تھے۔‘‘ صحیح مسلم،سنن ابنِ ماجہ،صحیح ابنِ خزیمہ اور دیگر کتب میں حضرت حذیفہ رضی اللہ سے مروی حدیث ذکر کی جا چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز شروع کی تو ایک ہی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ البقرہ،سورۃ النساء اور سورت آل عمران پڑھ دیں،پھر اتنے لمبے قیام کے تقریباً برابر ہی رکوع کیا،پھر قومہ بھی اتنا ہی کیا،پھر سجدہ بھی اسی قدر اور پھر دو سجدوں کے درمیان جلسہ بھی ایسے ہی کیا،پھر دوسرا سجدہ بھی ایسی مقدار میں کیا۔رحمت کی آیت پر رحمت طلب کرتے تھے اور عذاب کی آیت پر اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور جہاں کہیں آیتِ تسبیح آتی تو تسبیح کہتے۔[4]
Flag Counter