Maktaba Wahhabi

691 - 738
طرف تھوڑا سا متوجہ ہو کر سلام کہے اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ((اِنَّمَا یَکْفِیْ اَحَدَکُمْ اَنْ یَّضَعَ یَدَہٗ عَلَی فَخِذِہٖ،ثُمَّ یُسَلِّمُ عَلٰی اَخِیْہِ مَنْ عَلٰی یَمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ))[1] ’’تمھارے لیے یہی کافی ہے کہ ہاتھوں کو رانوں پر رکھے ہوئے ہی اپنے دائیں اور پھر بائیں والے بھائی کو سلام کہہ دیں۔‘‘ اس حدیث کو تمام محدثین نے باب السلام ہی میں ذکر کیا ہے۔صحیح مسلم کا باب دوسر اہے،لیکن وہاں باقاعدہ سلام پھیرنے کا تذکرہ آیا ہے،حتیٰ کہ صاحبِ ہدایہ اور صاحبِ ’’نصب الرایہ‘‘ نے بھی۔جیسا کہ یہ بات ہم بالتفصیل رفع الیدین کے مسئلے میں بھی ذکر کر آئے ہیں،لہٰذا اس سے ممانعتِ رفع یدین کا مسئلہ نکالنا محض تحکم اور سینہ زوری ہے۔ مسبوق کب کھڑا ہو؟ جس طرح مقتدیوں کے سلام پھیرنے کے وقت کا مسئلہ ہے،ایسے ہی نمازی جو بعد میں جماعت کے ساتھ شامل ہوا ہو،اُس کے اٹھنے کا مسئلہ بھی ہے۔بعض کے نزدیک مسبوق اُس وقت اٹھے جب امام دونوں طرف سلام پھیر لے۔دونوں سلاموں کو واجب ماننے والوں کے نزدیک اور امام احمد رحمہ اللہ کے دونوں سلاموں کو محبوب قرار دینے کی شکل میں تو یہی صحیح ہے کہ جب تک امام دونوں طرف سلام نہ پھیر لے،اس وقت تک مسبوق مقتدی بقیہ نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑا نہ ہو۔البتہ جن کے نزدیک پہلا سلام واجب ہے اور صرف اسی ایک پر ہی اکتفا کرنا بھی صحیح ہے اور دوسرا سلام محض سنّت و مستحب ہے،ان حضرات کے نزدیک امام کے دائیں جانب سلام پھیر لینے کے ساتھ ہی مسبوق کو کھڑے ہو جانا چاہیے۔سلطان العلماء بائع الملوک العزبن عبدالسلام نے اپنے فتاویٰ میں ثانی الذکر ہی کو اوّلیت دی ہے۔[2]
Flag Counter