Maktaba Wahhabi

168 - 738
ایک شخص گھر سے نماز کے ارادے سے چلا ہے،مسجد میں آکر اس نے وضو کیا،اب قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگا ہے۔اب اس کا تلفظ سے نیت کرنا ایسا ہی ہے جیسا کھانا شروع کرنے سے پہلے کوئی کہے:میں نیت کرتا ہوں کہ یہ کھانا کھاؤں،تاکہ پیٹ بھر جائے اور بھوک جاتی رہے،یا کپڑا پہنتے ہوئے یوں کہے:میں نیت کرتا ہوں کہ یہ کپڑا پہنوں،تاکہ میں اس سے بدن ڈھانکوں یا اس سے سردی سے بچاؤ حاصل کروں یا دھوپ کی تمازت سے بچ جاؤں۔کیا کوئی عقل مند اس قسم کی نیتوں کو جو دل میں موجود ہیں،ان کے تلفظ کو صحیح اور قرینِ دانش سمجھے گا؟ہر گز نہیں!‘‘ [1] سیدھا سادہ اور آسان دین: ہمارے دین اسلام کی تعلیمات انتہائی سیدھی سادی،آسان اور فطرتی ہیں،جیسا کہ خود قرآن کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ﴾[الحج:78] ’’اوراس(اللہ)نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ))[2] ’’بے شک دین آسان ہے۔‘‘ یہ تو قرآن و سنت کی تصریحات ہیں،لیکن تکلفات کے عمل دخل نے دین کو خاصا مشکل بناکے رکھ دیا ہے اور خاص طور پر معاشرے کے اکثریتی طبقے یعنی اَن پڑھ حضرات کے لیے تو کئی مسائل پیدا کر دیے گئے ہیں۔مثال کے طور پر نیت کا مسئلہ ہی لے لیں کہ شریعت میں اسے کھلا چھوڑا گیا ہے کہ کوئی عربی ہو یا عجمی،اپنے دل میں نیت کرے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دے۔اسے عربی و فارسی،اردو اور پنجابی یا دنیا کی کسی بھی زبان میں کچھ مخصوص الفاظ پر مشتمل نیت کی مہارنی یا گردان پڑھنے کا پابند نہیں کیا گیا۔جن حضرات نے اس گردان کو لازمی قرار دیا ہے،انھوں نے اس کے الفاظ بھی وضع کیے ہیں،جو یقینا ہر نماز کے ساتھ یعنی پہلے نمازِ پنج گانہ میں سے ہر نماز کے ساتھ اور پھر ہر
Flag Counter