Maktaba Wahhabi

212 - 738
علماء احناف کا اعتراف: اس حدیث کے صحیح ہونے کا اعتراف زیر ناف ہاتھ باندھنے کا مسلک رکھنے کے باوجود کبار علماء احناف نے بھی کیا ہے: 1۔ ابن امیر الحاج نے ’’مُنیۃ المُصلّي‘‘ کی شرح میں لکھا ہے کہ حضرت وائل رضی اللہ کی اس حدیث کے سوا ہاتھ باندھنے کی جگہ کا تعین کرنے والی دوسری کوئی حدیث نہیں ہے۔[1] 2۔ ایسے ہی بحر الرائق شرح کنز الدقائق(ص:330 مصری)میں ابنِ نجیم نے بھی کہا۔[2] 3۔ علامہ محمد حیات سندھی جنھیں نصب الرایہ کے مقدمہ میں برصغیر پاک و ہند کے کبار محدثینِ احناف میں سے پہلے نمبر پر ذکر کیا گیا ہے۔[3] انھوں نے تو نہ صرف یہ کہ اس حدیث کو صحیح کہا ہے،بلکہ اپنے رسالے ’’فتح الغفور في وضع الأیدي علی الصدور‘‘ جس کی علامہ سید بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ نے تحقیق و تخریج بھی کی ہے،[4] میں لکھا ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی مضبوط بنیاد اور واضح دلیل موجود ہے،لہٰذا اہلِ ایمان کے لائق نہیں کہ وہ اس(سنت)سے انکار و نفرت کریں اور کوئی مسلمان اس چیز سے کیسے نفرت کر سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو؟[5] شیخ محمد حیات سندھی نے اپنے رسالے ’’فوز الکرام‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث امام ابن خزیمہ کی شرط پر پوری اترنے والی ہے۔یہی بات ’’الإتحاف‘‘ میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتی ہے۔امام ابنِ سید الناس رحمہ اللہ نے شرح ترمذی میں اس حدیث کے بارے میں جو کہا ہے کہ ابنِ خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے،تو اس سے بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا پتا چلتا ہے۔[6] 4۔ صحیحین اور سننِ اربعہ کے محشی علامہ ابو الحسن سندھی حنفی نے سنن ابو داود کے حاشیے ’’فتح الودود‘‘
Flag Counter