Maktaba Wahhabi

128 - 738
رہی۔اس کی دلیل ایک تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے،دوسرے وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ کا اثر لائے ہیں،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((مَا بَالَیْتُ،اِنَّ الرَّجُلَ لَا یَقْطَعُ صَلَاۃَ الرَّجُلِ))[1] ’’(آدمی سامنے ہو تو بھی)مجھے کوئی پروا نہیں،کیونکہ کوئی آدمی کسی شخص کی نماز نہیں توڑتا۔‘‘ ان ہر دو طرح کے آثارِ صحابہ اور عملِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ موقف اختیار فرمایا ہے کہ اگر سامنے والے شخص کی وجہ سے نمازی کی توجہ کے بٹنے کا خدشہ نہ ہو تو کسی کے سامنے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،ہاں اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کی نمازی کے سامنے موجودگی اس کی توجہ کو نماز سے ہٹا دے تو پھر اس کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ توجہ بٹانے والے اور توجہ نہ بٹانے والے آدمی کے فرق کو سمجھنے کے لیے شاید یہ مثال مفید رہے کہ ایک آدمی ہے،صرف بیٹھا ہوا ہے اور ذکر و فکر میں مشغول ہے،اب ایسے آدمی کے سامنے نماز پڑھنے سے یقینا نمازی کی توجہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا،اس کے برعکس سامنے کوئی ایسا آدمی ہے جو خاموش نہیں ہے،بلکہ اپنے اور نمازی کے باہمی دلچسپی کے امور سے متعلقہ باتیں کر رہا ہے،تو ایسے آدمی کی نمازی کے سامنے موجودگی،جبکہ وہ محوِ گفتگو ہو،یقینا نمازی کی توجہ پر اثر انداز ہوگی۔لہٰذا ایسے شخص کے سامنے نماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔اس بات کا اندازہ تو اُس حدیث سے بھی ہو جاتا ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے: ((لَا تُصَلُّوْا خَلْفَ النَّائِمِ وَالْمُتَحَدِّثِ))[2] ’’سوئے ہوئے اور باتیں کرتے شخص کے سامنے نماز مت پڑھو۔‘‘ ایسے ہی معجم طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے بھی یہ مرفوعاً مروی ہے۔[3] البتہ مصنف ابن ابی شیبہ میں یہ حدیث امام مجاہد سے مرسلاً مروی ہے۔[4] اس حدیث پر بعض محدثین نے کلام کیا ہے،جبکہ بعض نے طرق و شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار
Flag Counter