Maktaba Wahhabi

138 - 738
ہے،کیونکہ اس حدیث میں اس بات کا واضح ذکر نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سُترہ تھا بھی یا نہیں،بلکہ اس حدیث کے الفاظ بہ ظاہر سُترہ نہ ہونے کا پتا دیتے ہیں،حتی کہ امام بیہقی نے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے: ’’بَابُ مَنْ صَلّٰی اِلٰی غَیْرِ سُتْرَۃٍ‘‘ یعنی سُترے کے بغیر نماز پڑھنے کا بیان۔ جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’اِلٰی غَیْرِ جِدَارٍ‘‘ کا معنی ’’اِلٰی غَیْرِ سُتْرَۃٍ‘‘ یعنی ’’سُترے کے بغیر ہی‘‘ کیا ہے۔جبکہ مسند بزار میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((وَالنَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُصَلِّی الْمَکْتُوْبَۃَ لَیْسَ لِشَیْ ئٍ یَسْتُرُہٗ))[1] ’’جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کوئی سُترہ رکھے بغیر پڑھ رہے تھے۔‘‘ یہ الفاظ بھی امام شافعی رحمہ اللہ کے بیان کردہ معنی اور امام بیہقی کی تبویب کی تائید کرتے ہیں۔اس کے بعد خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض متاخرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’إلٰی غیر جدار‘‘ سے دیوار کے سوا کسی دوسرے سُترے کی نفی تو نہیں ہوتی،لیکن اس مفہوم کو انھوں نے پسند نہیں کیا،کیونکہ ان کے بقول اگر دیوار کے سوا دوسرا کوئی سُترہ موجود ہوتا تو پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ’’إلٰی غیر جدار‘‘ نماز پڑھنے کی خبر دینے کا کوئی معنی نہیں بنتا،کیونکہ سُترے کی موجودگی میں تو ان کے گزرنے پر نکیر اصلاً ٹھیک ہی نہیں تھی۔ آگے لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے سُترے کے معاملے کو گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف و مالوف عادتِ مبارکہ پر محمول کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو برچھی گاڑے بغیر فضا میں نماز پڑھا ہی نہیں کرتے تھے۔پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ سے مروی احادیث سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلا سُترہ فضا میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اور سفر میں سُترے پر ہمیشگی فرمایا کرتے تھے۔صحیح مسلم میں اس حدیث کی شرح کے دوران میں امام نووی رحمہ اللہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ امام کا سُترہ ہی مقتدیوں کا بھی سُترہ ہے۔[2] بخاری شریف کے ایک دوسرے شارح علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نے ’’عمدۃ القاری‘‘ میں حافظ ابن حجر پر ان کا نام لیے بغیر اور امام بیہقی پر ان کا نام لے کر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
Flag Counter