Maktaba Wahhabi

170 - 738
یوں ایک رکعت فوت کر لی۔اس طرح ثواب و فضیلت میں جو کمی واقع ہو جاتی ہے،وہ یقینا ایک بہت ہی بڑا خسارہ ہے،لہٰذا اس خود ساختہ عمل سے بچیں،تا کہ خسارے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ان سب تفصیلات کے بعد دیکھیں کہ ’’البحر الرائق‘‘(1/ 277)کے حوالے سے صوفی عبدالحمید صاحب نے ’’نمازِ مسنون‘‘(ص:273)پر نقل کیا ہے کہ ’’نیت کا زبان سے کہنا ضروری نہیں،نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے،نہ خلفاے راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے،نہ تابعین کرام اور ائمہ اسلام سے لفظی نیت کا ثبوت ہے۔‘‘ اس سے آگے انھوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ ’’نیت تو فقط ارادے کا نام ہے،جس کا محل دل ہے نہ کہ زبان‘‘ پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوب نمبر(186)کا اقتباس بھی نقل کیا ہے اور شیخ عبدالحق کی ’’اللمعات شرح مـشکاۃ‘‘ سے بھی ایک سطر لی ہے۔پھر اس کے بعد معلوم نہیں کہ اپنے مقتدیوں کو راضی کرنے کے لیے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم،تعاملِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کے خلاف اپنے تجربے کو اِن الفاظ میں کیوں بیان کر دیا ہے: ’’لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ عوام کو اگر لسانی نیت سے روک دیا جائے تو وہ لسانی اور قلبی دونوں نیتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔‘‘ پھر آگے اپنے بعض پیش روؤں کے حوالے نقل کیے ہیں۔(دیکھیں،ص:274) صوفی صاحب کے مبلغِ علم کا تو ہمیں پتا نہیں،البتہ ان کی کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ عوام میں سے نہیں،پھر انھیں تجربہ کیسے ہو گیا؟ دین کیا صرف صوفی صاحب جیسے لوگوں ہی کے لیے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عوام کا(نعوذ باللہ)خیال نہیں رکھا؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا دین کو(نعوذ باللہ)نامکمل چھوڑ گئے ہیں کہ اب ان حضرات کو تکمیل کی زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے؟ ’’مسنون نماز‘‘ کو اسم بامسمیٰ بنانے کی کوشش فرماتے اور نیت کے الفاظ(لسانی نیت)کا ثبوت سنت سے دیتے تو کوئی بات ہوتی۔نیت تو تمام اعمال کی بنیاد ہے اور نیت کے معاملے ہی میں جب ’’غیر مسنون‘‘ فعل کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو ’’مسنون نماز‘‘ کے لیے آگے چل کر کیا کیا مشورے نہ دیے ہوں گے۔پہلی اینٹ ہی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ ’’دیوار‘‘ کجی سے نہیں بچ پائے گی۔بقولِ شاعر ؎
Flag Counter