Maktaba Wahhabi

185 - 738
ان سب اور ایسی ہی دیگر احادیث سے تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرنے کا پتا چلتا ہے۔ان ہی تمام احادیث کے پیش نظر یہ رفع یدین ایک متفق علیہ امر ہے۔چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ تکبیرتحریمہ کے ساتھ رفع یدین کے استحباب پر پوری امت کا اجماع ہے۔پھر تھوڑا آگے چل کر کہتے ہیں کہ رفع یدین کسی بھی جگہ واجب نہیں،اس پر بھی اجماع ہے،اِلاَّ یہ کہ امام داود ظاہری اور شافعیہ میں سے احمد بن یسار نے رفع یدین کو واجب کہا ہے۔[1] علامہ ابن حزم،امام ابن المنذر اور ابن السبکی رحمہم اللہ نے بھی امام نووی رحمہ اللہ کی طرح اس رفع یدین پر اجماع نقل کیا ہے۔[2] امام اوزاعی،ابن حمید اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ سے بھی امام حاکم کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے وجوب کا قول نقل کیا ہے اور قاضی حسین سے امام احمد کے بارے میں بھی وجوب کا قول ذکر کیا ہے۔[3] علامہ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ افتتاحِ نماز کے وقت رفع الیدین کے جواز پر علماء امت کا اجماع ہے۔بعض فقہاے احناف نے کہا ہے کہ اس رفع یدین کا تارک گناہ گار ہے،جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سب سے بہتر تعبیر امام ابن المنذر رحمہ اللہ کے الفاظ کو قرار دیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں: ’’لَمْ یَخْتَلِفُوْا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاۃَ‘‘[4] ’’اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے آغاز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔‘‘ غرض کہ امام بیہقی نے اپنے استاذ امام حاکم سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کوئی ایسی سنت نہیں ہے،جسے بیان کرنے پر چاروں خلفا،عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک میں ہونے کے باوجود متفق ہوں،سوائے تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرنے کے۔پھر خود امام بیہقی نے اپنے استاد کی تائید کی ہے۔[5]
Flag Counter