Maktaba Wahhabi

187 - 738
’’یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھوں کو کانوں کی چوٹیوں تک اٹھاتے تھے۔‘‘ یہاں یہ بات پیش نظر رکھیں کہ حدیث میں((فُرُوْعَ اُذُنَیْہِ))کے الفاظ آئے ہیں اور اس فروع کا معنی کانوں کی چوٹیاں ہیں جو کانوں کی اوپر والی بالائی جانب ہے،نہ کہ نیچے والی،کیونکہ کانوں کی لوؤں کے لیے ’’شحمۃ‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھوں کو اٹھانے کی حدود تین مقامات ہیں: 1 کندھوں تک۔ 2کانوں تک۔ 3 کانوں کی چوٹیوں تک۔ بلا تفریق مَرد وزن کندھوں یا کانوں تک ہاتھوں کو اٹھایا جائے۔کوئی مرد کندھوں تک ہاتھ اٹھائے یا کانوں تک اور کوئی عورت کانوں تک ہاتھ اٹھائے یا کندھوں تک،ہر طرح جائز اور روا ہے۔امام نووی اور حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے امام شافعی رحمہ اللہ سے ہاتھوں کو اٹھانے کی مقدار کے بارے میں وارد ہونے والی مختلف احادیث کو یکجا جمع کرنے اور ان سب پر بیک وقت عمل کرنے کا ایک طریقہ نقل کیا ہے جس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس طریقے یا ترکیب کو سبھی علما و فقہا نے استحسان کی نظر سے دیکھا ہے،اور وہ یوں کہ نمازی اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اس انداز سے اٹھائے کہ ہاتھوں کی انگلیوں کے پَورے کانوں کی چوٹیوں یا اوپر والے حصوں کے برابر ہو جائیں اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے دونوں کانوں کی نچلی لوؤں تک پہنچ جائیں اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں۔[1] موصوف کی اس جمع و تطبیق اور مطابقت و موافقت کو اگرچہ تمام علما و فقہا نے استحسان کی نظر سے دیکھا ہے،لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔اگر کسی کو آسانی سے اس کا تجربہ ہو جائے تو درست ہے،ورنہ کسی ایک طریقے پر عمل کرنا بھی جائز ہے۔ویسے بھی ابو داود کی جن دو روایتوں میں سے ایک میں((وَحَاذٰی اِبْہَامَیْہِ اُذُنَیْہِ))اور دوسری میں((یَرْفَعُ اِبْہَامَیْہِ اِلٰی شَحْمَۃِ اُذُنَیْہِ))کے الفاظ آئے ہیں کہ انگوٹھے کانوں کے برابر ہوں،وہ دونوں ہی صحت و ضعف کے اعتبار سے مختلف فیہ ہیں اور منقطع السند ہونے کی وجہ سے علامہ البانی رحمہ اللہ کے یہاں ضعیف السند قرار دی گئی ہیں۔البتہ حافظ ابن حجر کا انداز بتاتا ہے کہ وہ حسن درجے کی ہیں۔[2]
Flag Counter