Maktaba Wahhabi

208 - 738
ہے،وہ فرماتے ہیں: ((ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی کَفِّہِ الْیُسْرٰی وَالرُّسْغِ وَالسَّاعَدِ))[1] ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ کی(پشت اور)گُٹ(ہاتھ اور کلائی کے درمیانی جوڑ)اور کلائی پر رکھا۔‘‘ اس حدیث میں پہلے دو طریقوں سے قدرے مختلف انداز وارد ہوا ہے۔اس کی رو سے ہاتھ باندھنے کا یہ طریقہ بھی ہے کہ دائیں ہاتھ کو اس انداز سے بائیں ہاتھ پر رکھیں کہ دائیں ہاتھ کا کچھ حصہ بائیں ہاتھ کی پشت پر آئے اور کچھ حصہ ہاتھ اور کلائی کے درمیان والے گٹے پر آئے اور(کچھ حصہ)بائیں بازو کی کلائی پر بھی ہو جائے۔موطا امام مالک اور صحیح بخاری میں وارد حدیث کی رو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم فرمایا تھا:((وَاَمَرَ بِذٰلِکَ اَصْحَابَہٗ))[2] 4۔ ان تینوں طریقوں میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنے کا ذکر آیا ہے۔ایک حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑ لیتے تھے،چنانچہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی ہے: ((وَکَانَ یَقْبِضُ بِالْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی))[3] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے تھے۔‘‘ گویا ایک ہاتھ کو دوسرے پر رکھیں یا دائیں سے بائیں کو پکڑ لیں،دونوں طرح ہی جائز اور سنت ہے۔جو شخص جس پر چاہے عمل کر لے،صحیح اور درست ہے،مزید کسی تکلف کی چنداں ضرورت نہیں۔دُرّ مختار کے مولف اور اس کے حاشیے ’’ردّ المحتار‘‘ المعروف فتاویٰ شامی میں ابن عابدین نے،ایسے ہی شرح نقایہ و کبیری میں(بحوالہ مسنون نماز،ص:317،صوفی عبدالحمید سواتی)ان ہر دو صورتوں کو بیک وقت جمع کرنے کا ایک طریقہ بھی بتایا ہے کہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور چھنگلی سے بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑ لیں اور درمیان والی تین انگلیاں کلائی کے اوپر سیدھی رکھیں۔اس طرح رکھنے اور
Flag Counter