Maktaba Wahhabi

259 - 738
ان کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں لکھا ہے کہ صرف پہلی رکعت کے شروع میں ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے کی مشہور ہونے والی بات دراصل ان احادیث سے مستفاد ہے جن میں پہلی رکعت میں تعوذ کا ذکر آتا ہے جو بیان کی جا چکی ہیں۔باقی رکعتوں کے شروع میں اس کے مشہور نہ ہونے کا سبب ان احادیث میں وارد نہیں ہوا،کیونکہ دراصل وہ احادیث دعاے استفتاح کے سلسلے میں ہیں۔قرآنی آیت{فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾کے عموم کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہر رکعت کے شروع میں قراء ت کی ابتدا میں استعاذہ کیا جائے۔اسی لیے امام حسن بصری،عطا اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ہر رکعت میں استعاذہ کرنے کے استحباب کے قائل تھے اور امام ابن سیرین تو نہ صرف تعوذ بلکہ ثنا و استفتاح بھی ہر رکعت کے شروع میں پڑھنے کے قائل تھے(جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے)۔[1] لیکن علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور امام شوکانی رحمہ اللہ جیسے کبار محققین نے لکھا ہے کہ صرف پہلی رکعت میں ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھ لینا ہی کافی ہے،ہر رکعت کے شروع میں یہ ضروری نہیں،کیونکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک وہ نماز صرف ایک مسلسل قراء ت ہی شمار ہوگی اور تسبیح و تحمید اور تہلیل وغیرہ اذکار سے قراء ت کا انقطاع ثابت نہیں ہوتا۔[2] ویسے بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا نَہَضَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ افْتَتَحَ الْقِرَائَ ۃَ بِـ﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَوَلَمْ یَسْکُتْ))[3] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جاتے تو کسی سکتے کے بغیر{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾سے قراء ت شروع کر دیتے۔‘‘ صاحبِ ’’نیل الاوطار‘‘ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعتوں میں:’’سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ۔۔۔‘‘ اور ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ‘‘ نہیں پڑھتے تھے،یہ صرف پہلی ہی رکعت میں ہیں۔پھر
Flag Counter