Maktaba Wahhabi

334 - 738
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے عرض کی: ((قَدْ اَسْمَعْتُ مَنْ نَّاجَیْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ)) ’’اے اللہ کے رسول!جس سے میں مناجات کر رہا تھا اسے میں نے اپنی آواز سنا دی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ((مَرَرْتُ بِکَ وَاَنْتَ تُصَلِّیْ رَافِعًا صَوْتَکَ؟)) ’’میں تمھارے پاس سے گزرا جبکہ تم بلند آواز کے ساتھ قراء ت کر کے نماز پڑھ رہے تھے؟‘‘ انھوں نے عرض کی: ((یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!اُوْقِظُ الْوَسْنَانَ وَاُطْرِدُ الشَّیْطَانَ)) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!میں سونے والے کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔‘‘ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ سے فرمایا: ((یَا اَبَا بَکْرٍ!اِرْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْئًا))’’اے ابوبکر!اپنی آواز کو ذرا بلند کرو!‘‘ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے فرمایا: ((اِخْفِضْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْئًا))’’اپنی آواز کو اس سے ذرا پست کرو!‘‘ [1] امام طیبی کہتے ہیں کہ اس کی نظیر سورت بنی اسرائیل میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَ لَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتْ بِھَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا [بني إسرائیل:110] ’’اور اپنی آواز کو نہ زیادہ بلند کرو اور نہ زیادہ پست رکھو،بلکہ ان ہر دو کے درمیان رکھو۔‘‘ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ سے فرمایا کہ اپنی قراء ت سے اللہ کی مخلوق کو بھی فائدہ پہنچنے دو اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے فرمایا کہ اپنے نفس کا بھی کچھ خیال کرو اور اللہ سے مناجات کا حصہ بھی پاؤ۔علامہ عبدالحق اشبیلی نے ’’التہجد‘‘(1/ 90)میں لکھا ہے کہ دن کے نوافل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سِرّوجہر کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور اَظہر بات یہی ہے کہ ان میں سِرّاً قراء ت فرماتے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ دن کے وقت جہراً قراء ت کر رہے تھے تو
Flag Counter