Maktaba Wahhabi

343 - 738
((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَتَیْنِ وَیُطَوِّلُ فِی الْاُوْلٰی مَا لاَ یُطَوِّلُ فِی الثَّانِیَۃِ))[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(نمازِ ظہر کی)پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور کوئی دوسری دو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور پہلی رکعت کی قراء ت دوسری قراء ت سے طویل ہوتی تھی۔‘‘ 2۔ جبکہ صحیح مسلم اور جزء القراء ۃ امام بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ بیان فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ِظہر میں بڑی لمبی قراء ت فرماتے تھے: ((کَانَتْ صَلَاۃَ الظُّہْرِ تُقَامُ فَیَذْہَبُ الذَّاہِبُ اِلَی الْبَقِیْعِ فَیَقْضِيْ حَاجَتَہُ،ثُمَّ یَاْتِیْ مَنْزِلَہُ،ثُمَّ یَتَوَضَّاُ ثُمَّ یَاْتِیْ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلٰی مِمَّا یُطَوِّلُہَا))[2] ’’نمازِ ظہر کی اقامت ہوتی اور ایک شخص بقیع تک جاتا،قضاے حاجت کے بعد(واپس گھر آ کر)وضو کرتا اور مسجد میں آتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طولِ قراء ت کی وجہ سے ابھی پہلی ہی رکعت میں ہوتے۔‘‘ 3۔ جبکہ سنن ابو داود،صحیح ابن خزیمہ اور مصنف عبدالرزاق میں اس کا سبب بھی مذکور ہے: ((کَانُوْا یَظُنُّوْنَ اَنَّہُ یُرِیْدُ بِذٰلِکَ اَنْ یُدْرِکَ النَّاسُ الرَّکْعَۃَ الْاُوْلٰی))[3] ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ اس(طویل قراء ت)سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ پہلی رکعت کو پا لیں۔‘‘ 4۔ صحیح مسلم اور مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ یَقْرَأُ فِیْ کُلٍّ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ قَدْرَ ثَلاَثِیْنَ آیَۃً،(قَدْرَ قِرَائَ ۃِ الٓمّ تَنْزِیْل السَّجدۃ)وَفِیْہَا الْفَاتِحَۃُ))[4] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں تقریباً تیس تیس آیات(سورت الم
Flag Counter