Maktaba Wahhabi

346 - 738
یعنی نمازِ ظہر و عصر کی آخری دو رکعتوں میں سورت فاتحہ کے علاوہ بھی کچھ قراء ت کرنے کی اباحت کا بیان۔ آگے امام موصوف نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جائز و مباح اختلاف میں سے ہے کہ کوئی پڑھے یا نہ پڑھے،یہ اس اختلاف میں سے نہیں ہے جس میں سے ایک جانب ممنوع و محذور اور دوسری جانب مباح و جائز ہوتی ہے۔لہٰذا یہ جائز ہے کہ کوئی آخری رکعتوں میں صرف فاتحہ پڑھے اور اسی پر اکتفا کر لے اور یہ بھی جائز ہے کہ سورت فاتحہ کے علاوہ بھی کچھ پڑھ لے۔[1] امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے تو یہاں محض جائز و مباح کی بات کہی ہے جبکہ بعض اہل علم(جیسے شیخ البانی رحمہ اللہ)نے لکھا ہے کہ آخری دو رکعتوں میں سورت فاتحہ کے علاوہ بھی کچھ قراء ت کر لینا سنت ہے۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ سمیت صحابہ کی ایک جماعت کا یہی عمل تھا اور اسی کے موافق امام شافعی کا ایک قول بھی ہے،چاہے یہ نمازِ ظہر میں ہو یا کسی دوسری نماز میں۔اس کی دلیل صحیح مسلم،مسند احمد،صحیح ابن خزیمہ اور مسند ابی عوانہ والی یہ حدیث ہے جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔ اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کا اندازہ تیس آیات بتایاگیا ہے یا سورۃ السجدہ کے برابر۔سورۃ السجدہ بھی تیس آیات پر مشتمل ہے اور ان نمازوں کی آخری دو رکعتوں میں قراء ت کا اندازہ پہلی رکعتوں والی قراء ت کا آدھا یعنی تقریباً پندرہ آیات ہے۔سورت فاتحہ صرف سات آیات پر مشتمل ہے،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورت فاتحہ کی سات آیات کے علاوہ بھی آپ کوئی چھوٹی سورت یا کسی سورت کی چند آیات پڑھ لیتے تھے اور سورت فاتحہ کے ساتھ مل کر مجموعی قراء ت کی مقدار پندرہ آیات تک پہنچ جاتی تھی۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’منتقی الأخبار‘‘ کی شرح ’’نیل الأوطار‘‘ میں بھی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ کی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ نماز ظہر کی آخری دو رکعتوں میں پندرہ پندرہ آیات کی قراء ت اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورت فاتحہ کے علاوہ بھی کچھ پڑھا کرتے تھے،کیونکہ سورت فاتحہ تو کل سات آیات پرمشتمل ہے۔[2]
Flag Counter