Maktaba Wahhabi

413 - 738
یا شُفع و جفت یعنی چار،آٹھ،دس بھی ہو سکتی ہیں؟ اس سلسلے میں طاق سے متعلقہ روایت تو امام زیلعی رحمہ اللہ کے بقول ’’غریب جداً‘‘ یعنی ضعیف ہے۔[1] لہٰذا طاق و جفت ہر طرح سے جائز ہے،لیکن وتر چونکہ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے،جیسا کہ سنن ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ،مستدرک حاکم،سنن بیہقی،مسند احمد،زوائد مسند،طبرانی کبیر،قیام اللیل مروزی اور حلیۃ الاولیاء ابو نعیم میں حضرت علی و ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ))[2] ’’اللہ ایک ہے اور طاق عدد کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ لہٰذا افضل یہی ہے کہ تین،پانچ،سات تسبیحات کہہ کر عدد کو طاق ہی رکھا جائے،جفت نہ ہونے دیں،لیکن اگر کبھی رات کی نماز وغیرہ میں طویل رکوع و سجود کریں تو پھر اس گنتی کے چکر میں پڑنے کے بجائے جفت والے جواز پر عمل کر لینا بھی صحیح ہے۔[3] خصوصاً جبکہ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی رات کی نماز میں بہت طویل رکوع و سجود فرماتے۔ظاہر ہے کہ طویل رکوع میں دس بیس مرتبہ نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ یہ تسبیحات کہی جاتی ہوں گی،کیونکہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کی ایک نماز کا رکوع اتنا لمبا کیا کہ وہ تقریباً قیام کے برابر ہو گیا اور اس قیام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طویل سورتیں:سورۃ البقرۃ،سورۃ النساء اور سورۃ آلِ عمران تلاوت کی تھی،جن میں موقع بہ موقع دعا و استغفار بھی آیا ہے،جیسا کہ ’’صَلَاۃُ اللَّیْلِ‘‘(تہجد)کی قراء ت کے ضمن میں حدیث گزر چکی ہے۔[4] یہ معمول کبھی کبھار خصوصاً صلوٰۃ اللیل یا نماز تہجد میں ہوتا تھا،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی معمول یہ تھا کہ رکوع،قومہ،سجدے اور سجدوں کے درمیان کے وقفے برابر ہوتے تھے اور قیام و قعدہ لمبے،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث،جو سنن اربعہ(اِلّا النسائی)،مسند ابو عوانہ،سنن دارمی اور صحیح ابن خزیمہ میں بھی مروی ہے،اس میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter