Maktaba Wahhabi

430 - 738
نیز یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یہ تسمیع ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہنا بھی بالکل اسی طرح ہے جس طرح امام دوسرے مواقع پر تکبیراتِ انتقال کہتا ہے۔پھر جب اس کے ہر جگہ اللہ اکبر کہنے کے باوجود مقتدی بھی اللہ اکبر کہتے ہیں تو پھر رکوع سے اٹھتے ہوئے امام جو الفاظ کہتا ہے مقتدیوں کو بھی کہہ لینے چاہییں،خصوصاً جبکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور تکبیراتِ انتقال و آمین جیسے نظائر بھی موجود ہیں اور امام سیوطی نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تسمیع و تحمید دونوں کے مقتدی کے لیے مشروع و مستحب ہونے کا ثبوت مذکورہ دلائل کے علاوہ قیاس صحیح بھی ہے اور وہ یوں کہ صحیح مسلم،سنن ابو داود عمل الیوم واللیلہ نسائی،مسند ابی عوانہ اور سنن بیہقی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے مروی حدیث میں ہے: ((اِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ:حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ فَقُوْلُوْا:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ))[1] ’’جب موذن ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ‘‘ کہے تو تم کہو:’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ‘‘(مجھ میں نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی ہے)۔‘‘ اس حدیث میں تو سننے والے کو صرف ’’لا حول۔۔۔‘‘ پڑھنے کا حکم دیا گیا(جسے ’’حوقلہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ جواب ہے موذن کے ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ‘‘ کہنے کا،جو اختصاراً ’’حیعلہ‘‘ بھی کہلاتا ہے)تسمیع و تحمید کو جمع نہ کرنے کا کہنے والے ائمہ و فقہا کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ سننے والا موذن کے ساتھ ہی ’’حیعلہ‘‘ بھی کہے اور ’’حوقلہ‘‘ بھی۔اس اعتبار سے اس مذکورہ حدیث کا معنی ہوگا کہ جب موذن ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ‘‘ کہے تو تم ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ‘‘ کے ساتھ ہی ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ‘‘ بھی کہو۔ بعینہٖ تسمیع و تحمید والی حدیث کا معنی بھی یوں بنتا ہے کہ جب امام ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہے تو تم(مقتدی)’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہنے کے ساتھ ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ بھی کہو۔[2] اذان کے جواب میں جو وجوہات ِترجیح ہو سکتی ہیں،تسمیع و تحمید کے جمع کرنے میں بھی وہی
Flag Counter